امجد اسلام امجد ۔۔۔ لاکھ یہ امتحان سخت نہیں

لاکھ یہ امتحان سخت نہیں
کامیابی کی کوئی شرط نہیں

وقت سے بات چیت کیسے کریں!
یہ بھی تو سوچنے کا وقت نہیں

ایسے حالات میں جیے جانا
خود پہ اک ظلم ہے ، یہ ضبط نہیں

آپ کا نام زندگی ہے کیا؟
آپ کی گفتگو میں ربط نہیں

کیا سفر میں کہیں پڑاؤ کریں
شب گزاری کا بندوبست نہیں

اپنے سائے میں بیٹھنا ہو گا
دشت میں دور تک درخت نہیں

گِر کے اُٹھنے کا حوصلہ ہو تو
پھر سے گِرنا کوئی شکست نہیں

آپ کا قد ہے آپ کا کردار
کچھ بھی ورنہ بلند و پست نہیں

بات کر پھاڑ کر گریباں کو
کام دے گا یہاں پہ ضبط نہیں

بے وفائی سرشت میں اسکی
صاحبِ تخت کا بھی تخت نہیں

ریت کیوں پڑ رہی ہے آنکھوں میں
ہم جہاں ہیں یہ کوئی دشت نہیں

دل وہ قابل نہیں بھروسے کے
درد کی مہر جس پہ ثبت نہیں

اُس کو کچھ اور نام دے دیجے
عشق وہ کیا کہ جس میں ضبط نہیں

نیند چھانے لگی ہے محفل پر
اور ابھی داستاں کا وسط نہیں

اُس کو کیا کارواں چلے نہ چلے
جس مسافر کے پاس رخت نہیں

زندگی ہے تو اک سفر امجد
اس میں پر واپسی کی شرط نہیں

Related posts

Leave a Comment