علی اصغر عباس ۔۔۔ میں اپنے آپ سے پہلے ملا تھا آخری بار

میں اپنے آپ سے پہلے ملا تھا آخری بار
اسے تو بعد میں ملنے گیا تھا آخری بار

بچھڑتے وقت محبت بڑے عروج پہ تھی
چراغ بجھنے سے پہلے جلا تھا آخری بار

غبار آنکھوں میں پھیلا تھا بیتے لمحوں کا
گذرتا وقت بھی رکنے لگا تھا آخری بار

میں دونوں ہاتھوں میں تھامے اسے لرزتا تھا
وہ اشک بار جو چہرہ ہنسا تھا آخری بار

ہمارے دل جو دھڑکتے تھے ساتھ ساتھ کبھی
خموش تھے، کوئی چپ چاپ ساتھا آخری  بار

وصال یافتہ یہ ہجر بھی عجیب سا تھا
بھٹک کے راہ پہ دل ہولیا تھا آخری بار

وہ راستہ کہ جو ہم کو ملایا کرتا تھا
وہ رہگذار میں اوندھا پڑا تھا آخری بار

غروبِ شام میں سورج نڈھا ل غم سے تھا
لگا کہ رات سے دن مل رہا تھا آخری بار

سڑک کے دونوں طرف پیڑ گر پڑے اصغر
کوئی جو ٹوٹ کے ملنے چلا تھا آخری بار

Related posts

Leave a Comment