جلیل عالی ۔۔۔ مکالمے کو من و تو کا معرکہ تو نہ کر

مکالمے کو من و تو کا معرکہ تو نہ کر
کر اختلاف ، دلوں بیچ فاصلہ تو نہ کر

بجا کہ راہ کی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں
مفاہمت کی ضرورت کو فلسفہ تو نہ کر

میانِ ممکن و موجود فرق رہتا ہے
جو ناروا ہے اسے سوچ میں روا تو نہ کر

ہمارے شہر کے دشمن بھی اپنی گھات میں ہیں
سو احتجاج کو شورش کا سلسلہ تو نہ کر

جو دوستی ہے تو پھر دوستی کا مان بھی رکھ
ذرا سی بات کو بابِ مقاطعہ تو نہ کر

یہ مانتے ہیں کہ تو اُس کے اختیار میں ہے
مگر ہے وہ بھی تو انساں ، اُسے خدا تو نہ کر

دُکھا ہوا ہے جو دل اپنے دوستوں سے ترا
تو اِس غبار میں دشمن سے رابطہ تو نہ کر

خلا بھرا نہ ترا خاک میں ملا کے ہمیں
اب اپنی ریزگیِ دل کو قہقہہ تو نہ کر

Related posts

Leave a Comment