رمزی آثم

ہوئے ہیں خواب کیا بے خواب میرے
کہ شل ہونے لگے اعصاب میرے

بکھر کر رہ گیا شیرازہ میرا
دھرے سب رہ گئے اسباب میرے

تماشہ دیکھنے والے کہاں ہیں
کہاں ہیں سب کے سب احباب میرے

مسافر ہوں میں بحرِ زندگی کا
یہ لہریں میری ہیں گرداب میرے

میں اپنی رو میں بہتا جا رہا ہوں
مرے اندر ہیں سب سیلاب میرے

۔۔۔۔۔

مجھ میں خوشبو بسی اُسی کی ہے
جیسے یہ زندگی اسی کی ہے

وہ کہیں آس پاس ہے موجود
ہو بہ ہو یہ ہنسی اسی کی ہے

خود میں اپنا دکھا رہا ہوں دل
اس میں لیکن خوشی اسی کی ہے

یعنی کوئی کمی نہیں مجھ میں
یعنی مجھ میں کمی اسی کی ہے

کیا مرے خواب بھی نہیں میرے
کیا مری نیند بھی اسی کی ہے

Related posts

Leave a Comment