سید فخرالدین بلے ۔۔۔ ہے آب آب موج بپھرنے کے باوجود

ہے آب آب موج بپھرنے کے باوجود
دنیا سمٹ رہی ہے بکھرنے کے باوجود

راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفس پہ موت سے ڈرنے کے باوجود

اس بحرِ کائنات میں ہرکشتیِ انا
غرقاب ہو گئی ہے ابھرنے کے باوجود

شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس
بھیگے ہوئے ہیں پھول نکھرنے کے باوجود

زیر ِ قدم ہے چاند، ستارے ہیں گردِ راہ
دھرتی پہ آسماں سے اترنے کے باوجود

طوفاں میں ڈوب کر یہ ہوا مجھ پہ انکشاف
پانی تھی صرف موج بپھرنے کے باوجود

میں اس مقام پر تو نہیں آگیا کہیں
ہوگی نہ صبح رات گزرنے کے باوجود

الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود

ابہامِ آگہی سے میں اپنے وجود کا
اقرار کر رہا ہوں مکرنے کے باوجود

Related posts

Leave a Comment