سید فرخ رضا ترمذی ۔۔۔ پھول کھلنے لگے اور رات سہانی آئی

پھول کھلنے لگے اور رات سہانی آئی
تیرے آنے کی خبر جب مری رانی آئی

میرے اجداد نے میراث میں ہجرت چھوڑی
میرے حصے میں بھی بس نقل مکانی آئی

مدتوں بعد جو اسباب سنبھالا میں نے
یار کی اس میں نظر مجھ کو نشانی آئی

آج جب بزم میں اک دوست پرانا دیکھا
آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی
جب عریضے کو کیا میں نے سپردِ دریا
ٹھہرے پانی میں نظر مجھ کو روانی آئی

بات کہنے کے ہنر پر تھا بہت ناز مجھے
پر کبھی اپنی کہانی نہ سنانی آئی

دل تڑپتا ہے لہو بہتا ہے آنکھوں سے مری
جب بھی یاد اُسکی مجھے اشک فشانی آئی

Related posts

Leave a Comment