غلام مرتضیٰ ۔۔۔ دامن میں اک پہاڑکے۔۔۔۔۔۔

دامن میں اک پہاڑکے۔۔۔۔۔
(SAMUEL ROGERSکی نظم ’’A WISH ‘‘ کا آزاد ترجمہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دامن میں اک پہاڑ کے کٹیا بناؤں گا
میں چھوڑ کر نگر، کوئی جنگل بساؤں گا
ہر صبح بھیرویں مجھے گا کر سنائے گی
کانوں میں رس پڑے گا، مگس بھنبھنائے گی
چکّی مری چلائے گی بہتی ہوئی ندی
جھرنوںکے نیلے جل سے، ہری گھاس سے بھری
اس چھت کے نیچے رہنے ابابیل آئے گی
گارے کے گھونسلے میں بہت چہچہائے گی
مہمان تحفہ لائے گا اک جانماز کا
کھائے گا ساتھ کھانا وہ زائر حجاز کا
مہکیں گے سبز بیل پہ واں صبح و شام پھول
لپٹیں گے پی کے بام سے، شبنم کے جام پھول
پہنے ہوئے وہ آئے گی اک نیل گوں لباس
کاتے گی چرخہ بیٹھ کے پھولوں کے آس پاس
چادر گلابی سر سے ڈھلکتی ہی جائے گی
گوری، حسین بیوی مری گنگنائے گی
اُجلے سے خدّوخال جو ملتے ہیں بَلخ میں
آیت لکھی ہوئی ہو کوئی خطِ نسخ میں
مسجد پکارتی ہے جو: حَیّ عَلَی اَلفَلَاح
اک روز میرا اس سے ہوا تھا وہاں نکاح
پیڑوں کے بیچ برج منارے، حسین شام
ہم کو نماز آکے پڑھائے گا واں امام
گنبد میں گونجے لفظ، کہے تھے جو فرش پر
ہو کر کلس کی نوک سے، جائیں گے عرش پر

Related posts

Leave a Comment