سید مقبول حسین

کوئی بُت بھی نہیں ہے آستیں میں
گماں کے سانپ پلتے ہیں یقیں میں

یہ کیسے لوگ بستے ہیں یہاں پر
ہمیں رکھیں نگاہِ خشمگیں میں

دما دم ہو رہی ہے ہر گھڑی اب
یہ کیسے اژدھے ہیں آستیں میں

دِلا حُسنِ نظر کا سب ہے جادو
بڑا ہی ناز ہے اس نازنیں میں

ستارے بھی دمکنے لگ گئے ہیں
قمر ایسا کِھلا ہے چودھویں میں

پھلے پھولے یہ پاکستان سیّد
اسے پایا دعائے مرسلیں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔

ستارہ تو یونہی افلاک کے چکر میں رہتا ہے
ہمیشہ رات کا منظر پسِ منظر میں رہتا ہے

ہوا کا کیا ہوا اکثر مخالف سمت چلتی ہے
پرندہ ہے وہی اچھا جو اپنے پر میں رہتا ہے

سفر دشتِ جفا کا جان لیوا ہے مگر سائیں
یہ طفلِ عشق بھی ہر دم جنوں کے گھر میں رہتا ہے

اسے چھو لوں تو میرے ہاتھ سے خوشبو نکلتی ہے
نہ جانے کون ہے جو پھول کے پیکر میں رہتا ہے

وہ ایسا گل بدن دکھنے میں جو شیشے سے تھا نازک
چھوا تو یوں لگا جیسے کسی پتھر میں رہتا ہے

کبھی مقبول خلعت کی تمنا کی نہیں میں نے
کہ یہ درویش تو بس اپنی ہی چادر میں رہتا ہے

Related posts

Leave a Comment