شاہد ماکلی ۔۔۔ یہیں گرد و نواح میں گونجتی ہے، مرے قرب و جوار سے پھوٹتی ہے

یہیں گرد و نواح میں گونجتی ہے، مرے قرب و جوار سے پھوٹتی ہے
کوئی دُور دراز کی چاپ نہیں، جو سکوت کے پار سے پھوٹتی ہے

یہ جہانِ مجاز ہے عکس نُما، کسی اور جہاں کی حقیقتوں کا
یہاں چاند اُبھرتا ہے پانیوں سے، دھنک آئنہ زار سے پھوٹتی ہے

وہاں ساری شگُفت تضاد سے ہے، جہاں حیرتیں اوڑھ کے گھومتا ہوں
کہیں پھول چٹان سے پھوٹتا ہے، کہیں آگ چنار سے پھوٹتی ہے

نہ شمال و جنوب میں دیکھتا ہوں، نہ طلوع و غروب میں دیکھتا ہوں
میں وہ برق قلوب میں دیکھتا ہوں جو تجلّیء یار سے پھوٹتی ہے

ترے ارض و سما میں جو گرمیاں ہیں، وہ اِسی کی نفوذ پذیریاں ہیں
یہ جو موجِ حرارت اُمڈتی ہوئی مرے دل کے بخار سے پھوٹتی ہے

لیے بیٹھے ہیں آئنہ تیرگی میں، ابھی چشم براہ ہیں، دیکھتے ہیں
پس و پیش سے پھوٹتی ہے وہ کرن کہ یمین و یسار سے پھوٹتی ہے

کہیں وادئ نُور میں، رُوح کے ساز پہ حمدیہ گیت الاپتا ہوں
کوئی جھرنے سی ایک نَشاطیہ دُھن، مری صبح کے تار سے پھوٹتی ہے

یہ تو عکس ہزار شعاعوں کے ہیں، جو کہ ایک ہی عکس میں ڈھل گئے ہیں
کئی شمس و نجوم کی روشنی ہے جو ہمارے غبار سے پھوٹتی ہے

Related posts

Leave a Comment