شہزاد احمد شاذ ۔۔۔ زندگی کے سراب سے نکلے

زندگی کے سراب سے نکلے
حالت ِ اضطراب سے نکلے

ہم نے اس کو بھلا دیا دل سے
پھول کچھ پھر کتاب سے نکلے

ہم تلاشِ وفا میں نکلے تھے
پھر نہ پاؤں رکاب سے نکلے

شیخ! پا لے خدا کی ہستی کو
گر گناہ و ثواب سے نکلے

وہ کسی ایک کا جو ہو جائے
شہر بھی اضطراب سے نکلے

اسے کھویا تو لاکھ اندیشے
دلِ خانہ خراب سے نکلے

Related posts

Leave a Comment