ثمینہ سید ۔۔۔ جو بھاگ دوڑ کے ہم زندگی گزارتے ہیں

جو بھاگ دوڑ کے ہم زندگی گزارتے ہیں
سفالِ جسم میں بس اک تھکن اتارتے ہیں

یہ مشکلات کا سیلِ بلا ہے چاروں طرف
ہمارے جیسے تو بس ہاتھ پاؤں مارتے ہیں

ترا خیال ہمیں چھو کے جب گزرتا ہے
وجود کو بڑی مشکل سے ہم سہارتے ہیں

جب آئنہ کوئی ہوتا نہیں میسر تو
تمھارا چہرہ خیالوں میں ہم ابھارتے ہیں

تجھے بتا نہیں سکتے یہی تو مشکل ہے
تری تمنا میں ہم خود کو کیسے مارتے ہیں

جو ریزہ ریزہ دلِ زار ہونے لگتا ہے
کسی کے دستِ خوش آثار کو پکارتے ہیں

اُنھی قبیلوں میں اپنا شمار ہے سید
کہ جو چراغ کی لو میں دھواں اتارتے ہیں

Related posts

Leave a Comment