شہزاد احمد شیخ ۔۔۔ ہمیں ایسے سُدھرنا پڑ گیا ہے

ہمیں ایسے سُدھرنا پڑ گیا ہے
بلندی سے اُترنا پڑ گیا ہے

ہمیں بے موت مرنا پڑ گیا ہے
کِسی سے دِل لگانا پڑ گیا ہے

اداکاری بہت مہنگی پڑی ہے
حقیقت میں بھی مرنا پڑ گیا ہے

کِسی کی کھوج میں نکلا ہوں ایسے
خلاؤں سے گزرنا پڑ گیا ہے

خریداروں کی کثرت ہو رہی تھی
خوشی کا مال بھرنا پڑ گیا ہے

برستا ابر تو کچھ دیکھ پاتے
ابھی تو صبر کرنا پڑ گیا ہے

کوئی تو حُسن آیا تھا مقابل
جو شیشے کو بکھرنا پڑ گیا ہے

مجھے کھیتوں کی خاطر آبیانہ
فقط اشکوں سے بھرنا پڑ گیا ہے

مجھے تیری جبیں پر ٹانکنے تھے
ستاروں کو سنورنا پڑ گیا ہے

Related posts

Leave a Comment