طالب دہلوی ۔۔۔ ہنسنے کا امکان نہیں ہے

ہنسنے کا امکان نہیں ہے
رونا بھی آسان نہیں ہے
 
توڑ دیا دم امیدوں نے
اب کوئی ارمان نہیں ہے
شہر خموشاں سے گزرا ہوں 
یہ بستی ویران نہیں ہے
کون ہے جو دارِ فانی میں 
دو دن کا مہمان نہیں ہے
حیرت میں ہے دیکھنے والا 
آئینہ حیران نہیں ہے
جیسے چاہے بہلا لیجے 
دل سا بھی نادان نہیں ہے
دکھ دینا آسان بہت ہے 
دکھ سہنا آسان نہیں ہے
الفت خود عنوان ہے اپنا 
اس کا کچھ عنوان نہیں ہے
مرنے پر کیا ہو کیا جانے 
زیست میں اطمینان نہیں ہے
اوروں کے جو کام نہ آئے 
کام کا وہ انسان نہیں ہے
ان کی رضا پر راضی رہنا 
مشکل ہے آسان نہیں ہے
اپنا فرض ادا کرتے ہیں 
کسی پہ کچھ احسان نہیں ہے
حرف جب آتا ہو عزت پر 
چپ رہنا آسان نہیں ہے
طرفہ تماشہ دیکھا طالبؔ
ہے بھی اور بھگوان نہیں ہے

Related posts

Leave a Comment