اکرم کنجاہی ۔۔۔ بیگم شاہین زیدی

بیگم شاہین زیدی

سیدہ شاہین زیدی ۳۰؍ جولائی ۱۹۶۶ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ وہ شاعرہ، افسانہ نگار، ناول نگار،کالم نگار، سفرنامہ نگار،مدیرہ اورمحقق ہیں۔ اُن کا خاندان ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ سسر اور پھوپھا پروفیسر ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی ایک علمی و ادبی شخصیت تھ۔۱۹۹۷ء میں اُن کی شادی سید محمد مسعود الحسنین زیدی کے ساتھ ہوئی۔مسعود زیدی ۲۰۰۸ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ایک بیٹا محمد تابش مسعود ہے،جس کے ساتھ وہ اچھی زندگی گزار رہی ہیں۔ابتدا میں انہوں نے ’’روزنامہ مشرق‘‘میں صرف بچوں کی کہانیاں لکھیں۔ ۱۹۹۰ء میں باقاعدہ ’’روزنامہ شہاب، لاہور‘‘میں لکھنا شروع کیا۔اُن کا کلام رسالہ ’’اُجالا،لاہور‘‘اور’’انشا، کراچی‘‘ میں شائع ہوا،جن مختلف رسائل و جرائد میں لکھنے لگیں اُن میں ماہ نامہ ’’الحمرا‘‘ لاہور،سہ ماہی’’غنیمت‘‘ کراچی، ماہ نامہ ’’تخلیق‘‘لاہور،شامل ہیں اُن کی طبع شدہ کتب میں ’’جدا منزلیں جدا راہیں‘‘ (ناول)۲۰۱۰ء، ’کرم کی آس(افسانے)‘‘ ۲۰۱۳ء‘‘، سفر حج‘‘ (سفر نامہ) ۲۰۱۳ء  ، ’’ابھی موسم نہیں بدلا‘‘(شاعری)۲۰۱۴ء،’’پھر وہی دن کا اجالا‘‘(ناول)۲۰۱۶ء، ’’بند کواڑوں کا ادب‘‘ (اداریہ) ۲۰۱۶ء میں شامل ہیں۔
اُن کے افسانوں کااسلوبِ بیاں سادہ، عام فہم اوررواںہے۔وہ علامت یا تجرید کا استعمال بالکل نہیں کرتیں۔ افسانوں میں جزئیات کو بھی وہاں شامل کرتی ہیں جہاں پلاٹ کا تقاضا اوراز حد ضروری ہو۔وہ بیانیہ انداز میں کہانی بیان کرتی ہیں۔گویا اُن کی ہاں پلاٹ یا کہانی کی اہمیت ہے۔یہ الگ بات کہ کئی مقامات پر اُن کے ہاں پلاٹ سے زیادہ کردار بھی اہم ہو جاتا ہے جیسے افسانہ ’’سایۂ گُل‘‘ کا کردار آپی۔اس کا فائدہ بہ طور افسانہ نگار انہیں یہ ضرور ہوتا ہے کہ افسانے کی ابتدا ہی سے تجسس کا عنصر شامل ہو جاتا ہے اور قاری، لکھاری کے ذہن سے ذہن ملا کر کہانی پڑھتا چلا جاتا ہے۔
اُن کے زیادہ تر کردار نسوانی ہیں اور اُن ہی سے متعلق وہ لکھتی ہیں۔جیسے ’’یہ کیسی قربانی ہے‘‘ میں پلاٹ ایک کردار ’’ثریا‘‘ کے گرد گھومتا ہے اور اِس افسانے میں مزید بھی نسائی کردار ابھرتے ہیں مثلاً ماسی جنت اور پروین۔ افسانہ’’ ہنی صاحبہ‘‘ میں مرکزی کردار ’’روشنا‘‘ اور ہنی۔افسانہ ’’روشنی‘‘ کا مرکزی کردار روشنی اور افسانہ ’’سایۂ گُل‘‘ سے متعلق بتا چکا ہوں کے اُس کا کردار ’’آپی۔‘‘اُن کے افسانوں کے کئی نسوانی کردار خود کشی بھی کرتے دکھائی دئیے مثلاً روشنی اور ثریا۔
شاہین زیدی نے سماجی رویوں،معاشی حالات کے تناظر میں رنگ بدلتے چہروں،اور نسوانی کیفیات کی بھر پور عکاسی کی ہے۔یوں اُن کا بنیادی موضوع عورت ہی ہے۔ خاص طور پر اُنہوں نے ملازمت پیشہ خواتین کے معاشی، سماجی اور معاشرتی مسائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، اُن کی نفسیاتی کیفیات اور لجھنوں کو بھی بیان کیا ہے۔اُن کے کردار روشنا کے معاشی مسائل اور آپی کی نفسیاتی گتھیاں افسانوں’’ ہنی صاحبہ‘‘ اور’’سایۂ گُل‘‘میں سامنے آتی ہیں۔ مزید براں اُن کے افسانوں میں خاندانی مسائل اور جھگڑے، وٹے سٹے کی شادیوں سے جنم لینے والے تکلیف دہ مسائل وغیرہ بھی پڑھنے میں آتے ہیں۔افسانہ ’’یہ کیسی قربانی ہے‘‘ میں وٹے سٹے کی شادی کو موضوع بنایاگیا ہے۔ثریا اور راشد ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور الگ نہیں ہونا چاہتے مگر ثریا کا بھائی ماجد اپنی بیوی پروین (راشد کی بہن) کو ناپسند کرتا ہے۔ ماجد اپنی بہن ثریا پر بے جا اور غلط دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ قربانی دے اور راشد سے الگ ہو جائے مگر وہ ایسا نہیں کرنا چاہتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھائی کے غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے وہ زہر کھا کر خود کشی کر لیتی ہے اور ایک ہنستا بستا گھر برباد ہو جاتا ہے اور معصوم بچے ماں کے پیار سے محروم ہو جاتے ہیں۔افسانہ سایۂ گُل سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے کہ ایک خاتون جو اپنے والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمے داریوں کا بوجھ اٹھا لیتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی شادی بہت تاخیر سے ہوتی ہے اور وہ خاتون کئی طرح کی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتی ہے:
’’وہ (آپی)جس عمر میں دلہن بنی تھیں اس عمر میں ان کے چہرے پر کم عمری والاروپ تو نہیں آسکتا تھا۔ ان کے چہرے کی جھریاں ان کی ڈھلتی عمر کی چغلی کھارہی تھیں ہماری کزن صاحبہ کی شادی بھی چھبیس ستائیس سال کی عمر میں ہوئی تھی وہ بھی کوئی اتنی کم سن نہیں تھیں مگر انہیں ہر بات میں آپی سے مقابلہ ضرور کرنا ہوتا تھا۔
آپی زندگی کی بہت سی تلخ حقیقتوں کا کھل کر سامنا کرنے سے کتراتی تھیں۔ مثلا ً اپنی شادی کے وقت سے لے کر شادی کے بعد پیش آنے والی کمزوریوں کو انہوں نے نیا رنگ دے دیا وہ اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات صرف اپنی بہنوں کی ذمہ داری اداکرنے کے سبب اچھے نہیں گزار سکیں سو انہوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ امی اور بہنیں میری خوشیوں کی دشمن ہیں۔ آپی کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تھی تو اس کی ذمہ دار بھی وہ شادی شدہ بہنوں کو سمجھتیں آپی کا کہنا تھا کہ اگر بہنیں اُن کی شادی بَر وقت کر دیتیں تو شاید ان کے ہاں بھی آج اولاد جیسی نعمت ہوتی۔سُسرال والوں سے بھی آپی جلد بَدگُمان ہو گئیں، آپی کے دماغ میں یہ خیال گھر کر گیا کہ ان پر جادو ٹو نہ کیا جا رہا ہے۔ کوئی ان کی قابلیت،کوئی ان کی خوبصورتی اور کوئی ان کے شوہر سے جلتا ہے۔ اپنے بھائی بہنوں اور ماں کی محافظ آپی کی شادی مقررہ وقت پر نہ ہوئی تو انہی رشتوں پر فدا ہونے والی آپی کی شخصیت میں کیسی عجیب وغریب تبدیلیاں آگئی تھیں۔ مشکلات کا مقابلہ خندہ پیشانی سے کرنے والی بہادر آپی جوسب خاندان والوں کے لیے ایک مثال تھی۔
آپی ہر لڑکی کا آئیڈل تھیں ہر کوئی اُن جیسا بننا چاہتا تھا۔ ہر گھر میں ان کی قابلیت ان کی سلیقہ مندی کا چرچا تھا …مگر یہ کیا وہ جو ہمارے لیے سایہ گل کی مانند تھیں آخر انہیں کس کی نظر لگ گئی؟‘‘
مختصر یہ کہ ’’کرم کی آس‘‘ میں انہوں نے متوسط طبقے کی ملازم پیشہ عورت کے مسائل کے ساتھ ساتھ، عام خواتین کی محسوسات، جذبات و احساسات اور تمناؤں کا باریک بینی سے ایک نفسیات دان کی طرح مطالعہ کیا ہے۔اُن کی اکثرکہانیوں میں عورت استحصال کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ وہ بے لوث خدمت کرتی ہے۔ بے صلہ محبت کرتی ہے مگر نا قدریٔ حالات کا شکار رہتی ہے کہیں تقدیر کے لکھے کے ہاتھوں اور کہیں مرد اساس معاشرے کے ہاتھوں۔ مصنفہ نسوانی فطرت اور اس کی داخلی و خارجی نفسیات کا گہرا شعور و ادارک رکھتی ہیں۔یو ںافسانہ نگاری میں مقصدیت کا پہلو نمایاں ہوا ہے اور تخلیقات معاشرے کی اصلاح و درستی کا فریضہ بھی سر انجام دے رہی ہیں۔
اُن کا ناول ’جدا منزلیں، جدا راہیں‘‘ بھی معاشرتی و سماجی حقیقت نگاری کے زمرے میں آتا ہے۔اپنے گردو پیش، تہذیب و معاشرت کی عملی تفسیر ہے۔عصری آگہی کا عکاس ہے۔اُن کی افسانوں کی طرح ناول بھی اسلوبِ بیاں میں عام فہم اور سادہ ہے۔ ہر طرح کی زبان و بیان کی آرائش اور تصنع سے پاک ہے۔انداز بھی افسانوں کی طرح بیانیہ ہے۔اُن کے کردار بھی ہمارے ماحول اور معاشرت سے ہیں۔کوئی اَن ہونا کردار دکھائی نہیں دیتا جو قاری کے لیے کسی طرح کی تفہیم کا مسئلہ پیدا کرے۔مذکورہ ناول میں بھی اُن کا عمرانی شعور عروج پر دکھائی دیتا ہے۔

Related posts

Leave a Comment