عرفان صادق ۔۔۔ مایوسی کی گہرائی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے

مایوسی کی گہرائی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے
آنکھ میں آنسو آجائیں تو منظر دھندلا ہو جاتا ہے

ہجر کو خود پہ اوڑھ کے چلنے والے بات یہ جان چکے ہیں
خوش خوش باتیں کرتا بندہ گونگا بہرا ہو جاتا ہے

چھوڑ کے جانے والے تجھ کو یاد دلانا تھا بس اتنا
پیڑ گرے تو ڈالی ڈالی پتہ پتہ ہو جاتا ہے

دل کی باتیں کرنا سننا لوگو بہت ضروری ٹھہرا
کمرے کی کھڑکی نہ کھلے تو حبس زیادہ ہو جاتا ہے

عشق کی راہ پہ چلنے والے لوگ یہ خوب سمجھ لیتے ہیں
بات کبھی کچھ بھی نہیں ہوتی اور تماشا ہو جاتا ہے

اچھی نیت رکھی ہو تو چہرے پرہوتی ہے جگ مگ
اچھی باتیں کرنے سے ماحول بھی اچھا ہو جاتا ہے

دور پہاڑی جھیلوں میں تو لگتا ہے آئینے جیسا
دریا میں جب آتا ہے تو پانی گدلا ہو جاتا ہے

بے چینی کی لہر رواں رہتی ہے سوچوں میں ہر لمحے
جتنے شعر میں کہہ لیتا ہوں اتنا افاقہ ہو جاتا ہے

Related posts

Leave a Comment