علی حسین عابدی ۔۔۔ تالاب مری اشک فشانی سے بھرے ہیں

تالاب مری اشک فشانی سے بھرے ہیں
اوراق زندگی کی کہانی سے بھرے ہیں

افسانوں میں اک طور بڑھاپے کی جھلک ہے
اشعار مگر شوخ جوانی سے بھرے ہیں

تعبیر کی گتھی کہ سلجھتی ہی نہیں ہے
سب خواب ہی تشکیکِ معانی سے بھرے ہیں

معدوم ہے تہذیب و تمدن کی روایت
یہ شہر فقط نقل مکانی سے بھرے ہیں

میں خشک خیالوں کا امیں ایک جزیرہ
اطراف مرے کھار کے پانی سے بھرے ہیں

خاکسترِ خاموش ہوا بیٹھا ہوں لیکن
افکار مرے شعلہ فشانی سے بھرے ہیں

Related posts

Leave a Comment