نوید مرزا ۔۔۔ دو غزلیں

خاک کو عرش تو قطرے کو گہر کرتی ہے
یہ کرشمہ بھی فقط اُس کی نظر کرتی ہے

میں تو صدیوں کی مسافت سے پلٹ آتا ہوں
میرے پیچھے تری آواز سفر کرتی ہے

سانس کی لَے ابھی کچھ اور بھی مدّھم ہو گی
لمحہ لمحہ یہ مجھے خاک بسر کرتی ہے

کون اس دل میں اُترتا ہے گلابوں کی طرح
کس کی خوشبو مری سانسوں پہ اثر کرتی ہے

گردش وقت سنبھالے ہوئے پھرتی ہے مجھے
وار دشمن کی طرح شام و سحر کرتی ہے

اپنی ہی خاک سے ہوتے ہیں ثمرور سارے
تیز آندھی بھی تو پودوں کو شجر کرتی ہے

ٹوٹ جاتا ہے طلسم شبِ رفتہ بھی نوید
روشنی ایسے اندھیرے سے گزر کرتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُسے کوئی سزا سی ہے
زمیں صدیوں کی پیاسی ہے

میں باہر سے چمکتا ہوں
مرے اندر اُداسی ہے

نئے انسان کی دنیا
پرانی اک کتھا سی ہے

سفر جاری ہے صدیوں کا
یہ دُنیا تو ذرا سی ہے

مقابل آئنہ رکھنا
محبت خود شناسی ہے

سفر بے سمت کرتے ہو
مسلسل بدحواسی ہے

دکھوں سے چور اک لڑکی
زمانے سے خفا سی ہے

بغاوت کر نہیں سکتی
کسی مندر کی داسی ہے

خزاں آثار منظر ہیں
رُتوں کی بے لباسی ہے

Related posts

Leave a Comment