اقبال سروبہ ۔۔۔ سلام یا حسین

نام میرے لب پہ آیا جس گھڑی شبیر کا
گوشہ گوشہ ہو گیا روشن دلِ دلگیر کا

گل ہوئیں باطل کی شمعیں جل اٹھی قندیلِ حق
یوں ہوا شہرہ جہاں میں نعرہ تکبیر کا

یوں بہتر تن سروں پر باندھ کر نکلے کفن
پانی پانی ہو گیا خونِ جگر شمشیر کا

اے حسین ابنِ علی تیری شجاعت کو سلام
تیرا خوں غازہ بنا اسلام کی توقیر کا

آج بھی نادم ہے زنداں عابدِ بیمار سے
حلقہ حلقہ رو رہا ہے آج بھی زنجیر کا

جب سے رنگیں ہو گئی آلِ عبا کے خون سے
کربلا کی خاک رکھتی ہے اثر اکسیر کا

خون سے روشن کئے اقبال طوفاں میں چراغ
"حق ہے ممنونِ کرم قربانی ٔ شبیر کا”

Related posts

Leave a Comment