اقبال سروبہ ۔۔۔ پھول کے بدلے یہاں پر خار کی امید رکھ

پھول کے بدلے یہاں پر خار کی امید رکھ ظالموں کے شہر میں تکرار کی امید رکھ سر جھکانے سے میاں عزت نہیں ملتی یہاں سر رہے اونچا تو پھر دستار کی امید رکھ خوشبوؤں کی تاک میں جو تم چلے آئے یہاں اس جہانِ گل میں بس انگار کی امید رکھ صرف چلنا ہی نہیں کچھ حوصلہ بھی چاہیے راہ میں ہر دن نئی دیوار کی امید رکھ جس پہ کر احسان اْس کے شر سے بھی ڈر ہم نشین دوست جب دشمن بنے تو دار کی امید رکھ…

Read More

اقبال سروبہ ۔۔۔ طویل رات تھی دل کا دیا بجھا ہوا تھا

طویل رات تھی دل کا دیا بجھا ہوا تھا ہوا رکی ہوئی تھی وقت بھی رکا ہوا تھا میں خالی ہاتھ چلا تھا تو مجھ کو یاد آیا جو میرے پاس تھا سب کچھ ترا دیا ہوا تھا میں جانتا تھا مرے دوست تو نہیں میرا ترا مزاج کسی اور سے ملا ہوا تھا ہماری قبر پہ اک شاخ بھی ہری پڑی تھی اگر ہو یاد تجھے پھول بھی کھلا ہوا تھا تمہیں ہو یاد کہ اک شاخ سبز تھی جس پر تمہارے آنے سے اک پھول بھی کھلا ہوا…

Read More

اقبال سروبہ ۔۔۔ زندگی ادھوری ہے

میں ادھر کو چلتا ہوں جس طرف اندھیرا ہو راستہ نہیں ہوتا آدمی ادھورا ہوں کام بھی ادھورے ہیں اب نشہ نہیں ہوتا جام بھی ادھورے ہیں رات بھی ادھوری ہے بات بھی ادھوری ہے کچھ بھی کر گزرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا ایک شعر کہتا ہوں دوسرا نہیں ہوتا شاعری ادھوری ہے زندگی ادھوری ہے

Read More

اقبال سروبہ ۔۔۔ خزاں گزیدہ بہار ہونے سے رہ گیا ہوں

خزاں گزیدہ بہار ہونے سے رہ گیا ہوں کسی کے دل کا قرار ہونے سے رہ گیا ہوں رکی تو تھی میرے واسطے تیری پالکی بھی مگر میں اس میں سوار ہونے سے رہ گیا ہوں یہ شان مجھ کو ملی ہے نعتِ نبی کے صدقے میں عاصیوں میں شمار ہونے سے رہ گیا ہوں مرا یہ ہونا بھی ایک ہی مرتبہ ہوا ہے میں چاک پر بار بار ہونے سے رہ گیا ہوں مری بھی خواہش تھی میں بھی بحرِ عظیم ہوتا نہ جانے کیوں بے کنار ہونے سے…

Read More

اقبال سروبہ ۔۔۔ محبت کے حسیں نغمے سنانے کون آئے گا

محبت کے حسیں نغمے سنانے کون آئے گا ستاروں سے تری محفل سجانے کون آئے گا اُٹھیں اور اِس زمانے کی روایت کو بدل ڈالیں ہمارے بعد دیواریں گرانے کون آئے گا مری صورت گلوں کی آس لے کر بھولے بھٹکے سے پھر اِس پُر خار وادی میں نجانے کون آئے گا بھلا دے شوق سے مجھ کو مگر یہ ذہن میں رکھنا دیا تیری محبت کا جلانے کون آئے گا سجا کے سر ہتھیلی پر زمانے بھر کو دِکھلایا وفا اقبال کی صورت نبھانے کون آئے گا

Read More

اقبال سروبہ ۔۔۔ سلام یا حسین

نام میرے لب پہ آیا جس گھڑی شبیر کا گوشہ گوشہ ہو گیا روشن دلِ دلگیر کا گل ہوئیں باطل کی شمعیں جل اٹھی قندیلِ حق یوں ہوا شہرہ جہاں میں نعرہ تکبیر کا یوں بہتر تن سروں پر باندھ کر نکلے کفن پانی پانی ہو گیا خونِ جگر شمشیر کا اے حسین ابنِ علی تیری شجاعت کو سلام تیرا خوں غازہ بنا اسلام کی توقیر کا آج بھی نادم ہے زنداں عابدِ بیمار سے حلقہ حلقہ رو رہا ہے آج بھی زنجیر کا جب سے رنگیں ہو گئی آلِ…

Read More

اقبال سروبہ ۔۔۔ ملی نغمہ

مرے وطن کے عظیم لوگو مرے وطن کا خیال رکھنا اسی کے دم سے ہی رونقیں ہیں یہ رونقیں تم بحال رکھنا تمھاری آنکھیں رہیں سلامت کوئی بھی منظر بکھر نہ جائے کسی بھی لمحے وطن کی مورت تمھارے دل سے اتر نہ جائے جو ہو سکے تو ہمیشہ قائم وطن کا حسن و جمال رکھنا وطن کی جانب کوئی بھی میلی نظر سے دیکھے قدم بڑھانا وہ پھر سے ہمت نہ کر سکے گا اسے تم ایسا سبق سکھانا تمہیں جو سونپی گئی امانت اسے سدا تم سنبھال رکھنا…

Read More

اقبال سروبہ ۔۔۔ کسی کے ہونٹوں پہ پیاس دیکھی کسی کے ہاتھوں میں جام دیکھا

کسی کے ہونٹوں پہ پیاس دیکھی کسی کے ہاتھوں میں جام دیکھا بس اپنی دھرتی پہ ہم نے برسوں یہی فسردہ نظام دیکھا محبتوں کا رواج دیکھا نہ چاہتوں کا سماج دیکھا خلوص و مہر و وفا کا پیکر کوئی نہ ہم نے امام دیکھا یہاں امیر و وزیر دیکھے سبھی صغیر و کبیر دیکھے اَنا کا جو بھی اسیر دیکھا وہ خواہشوں کا غلام دیکھا بغیر محنت کے پاؤ عزت کہ یہ اصولِ جہاں نہیں ہے یہاں تو جس نے بھی کی ریاضیت اُسی کا اُونچا مقام دیکھا وہ…

Read More

اقبال سروبہ ۔۔۔ غزلیں

قربتوں کے دلربا گزرے زمانے یاد کر نت نئے ملنے ملانے کے بہانے یاد کر ہاں وہی مستی میں ڈوبے دل نوا شام و سحر ہاں وہی جام و سبو وہ بادہ خانے یاد کر بچپنا مٹی کی خوشبو بارشوں کی شوخیاں خواب، جگنو اور گڑیوں کے فسانے یاد کر گاؤں کے اک بوڑھے برگد کی گھنیری چھاؤں میں مل کے جو گاتے تھے وہ نغمے پرانے یاد کر یاد تو ہو گی سمندر کی کہانی آج بھی نام لکھ کر بر لبِ ساحل مٹانے یاد کر قرب کے لمحات…

Read More