اقبال سروبہ ۔۔۔ زندگی ادھوری ہے

میں ادھر کو چلتا ہوں
جس طرف اندھیرا ہو
راستہ نہیں ہوتا
آدمی ادھورا ہوں
کام بھی ادھورے ہیں
اب نشہ نہیں ہوتا
جام بھی ادھورے ہیں
رات بھی ادھوری ہے
بات بھی ادھوری ہے
کچھ بھی کر گزرنے کا
حوصلہ نہیں ہوتا
ایک شعر کہتا ہوں
دوسرا نہیں ہوتا
شاعری ادھوری ہے
زندگی ادھوری ہے

Related posts

Leave a Comment