میں ادھر کو چلتا ہوں
جس طرف اندھیرا ہو
راستہ نہیں ہوتا
آدمی ادھورا ہوں
کام بھی ادھورے ہیں
اب نشہ نہیں ہوتا
جام بھی ادھورے ہیں
رات بھی ادھوری ہے
بات بھی ادھوری ہے
کچھ بھی کر گزرنے کا
حوصلہ نہیں ہوتا
ایک شعر کہتا ہوں
دوسرا نہیں ہوتا
شاعری ادھوری ہے
زندگی ادھوری ہے
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ سُن کے میرے عشق کی روداد کو
سُن کے میرے عشق کی روداد کو لوگ بھولے قیس کو فرہاد کو اے نگاہِ یاس!... -
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو...