محمد نوید مرزا ۔۔۔ کھلے ہیں آگہی کے مجھ پہ در آہستہ آستہ

کھلے ہیں آگہی کے مجھ پہ در آہستہ آستہ ہوئی سارے زمانے کی خبر آہستہ آہستہ ہمیشہ کروٹیں لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے زمیں محور سے ہٹتی ہے مگر آہستہ آہستہ کسی آہٹ سے کب کوئی مکاں مسمار ہوتا ہے چٹخ کر ٹوٹتے ہیں بام و در آہستہ آہستہ بلندی کی طرف اُن کو ہوائیں لے کے جاتی ہیں بناتے ہیں پرندے رہگزر آہستہ آہستہ ہوا تبدیلیوں کی چل پڑی موسم بدلنے سے ملیں گے اب نئے شام و سحر آہستہ آہستہ خود اپنی ذات کے بارے میں بھی کب…

Read More

محمد نوید مرزا ۔۔۔ رنگوں کا اک جہاں مرے اندر نہیں کھلا

رنگوں کا اک جہاں مرے اندر نہیں کھلا خوشبو کے باوجود گُلِ تر نہیں کھلا لہروں کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا تھا میں تشنہ لبی میں ، مجھ پہ سمندر نہیں کھلا اک خواب تھا ، میں جس کو نہ تعبیر دے سکا ذہنوں پہ منکشف تھا ، زباں پر نہیں کھلا میں جس پہ دستکوں کے نشاں چھوڑ کر گیا حیراں ہوں کائنات کا وہ در نہیں کھلا میں اُس کی جستجو میں رہا ہوں تمام عمر یہ اور بات مجھ پہ ستم گر نہیں کھلا

Read More

محمد نوید مرزا ۔۔۔ جستجو کو ہم جگاکر ہجر میں

جستجو کو ہم جگاکر ہجر میں تجھ کو ڈھونڈیں گے دیارِ فکر میں جب زلیخا کی نظر ملتی نہیں کیسے بکنے جاؤں میں اب مصر میں جس کو آنکھوں نے کبھی دیکھا نہیں عمر گزری ہے اُسی کے ذکر میں پھول کھلنے کی دعا کرتے رہو جھاڑیاں سی اُگ رہی ہیں فکر میں جس کی یادوں کی مہک ہے آس پاس شعر کہتا ہوں اُسی کے ہجر میں سب ہیں قاتل آدمیت کے نوید فرق کیا ہے اب یزید و شمر میں

Read More

محمد نوید مرزا ۔۔۔ غزل کے رنگ سچّے ہیں (شکیب جلالی کے ایک نظم)

غزل کے رنگ سچّے ہیں (شکیب جلالی کے ایک نظم) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُسے ہر شعر میں اپنے تخیل کو نئے مفہوم سے آراستہ کرنے کا یارا تھا وہ اک ایسا ستارا تھا کہ جس کی روشنی میں اک صدی کے بعد بھی کرنیں اُبھرنی تھیں غزل کو تازگی کے حسن سے اُس نے نوازا تھا بہت سے زخم تھے جو ذہن کی بھٹی میں ڈالے تو نئے اشعار نکلے تھے جو اُس کی روح تک پھیلے ہوئے ہر کرب کا اظہار نکلے تھے اُسی نے اس شکستہ زندگی میں بوجھ برسوں…

Read More

محمد نوید مرزا ۔۔۔ جس کو احمد فراز کہتے ہیں (احمد فراز کے لیے نظم)

جس کے شعروں میں دل دھڑکتا تھا جس کی باتوں میں رنگ ہوتے تھے اُس کے لفظوں کے دائرے اندر ان گنت تتلیاں بھی ہوتی تھیں پھول ، خوشبو ، ہوا ، سبھی موسم دسترس میں وہ اپنی رکھتا تھا حرف اُس کے غلام تھے سارے وہ اُنھیں دم بدم پرکھتا تھا ظلمتوں کے خلاف بھی اُس نے روشنی کے پیام لکھے تھے جو صفِ دشمناں میں رہتے ہیں ایسے لوگوں کے نام لکھے تھے عام لوگوں میں خاص تھا کوئی زندگی کی اساس تھا کوئی اُس کی یادوں میں…

Read More

نوید مرزا ۔۔۔ زبانِ دل کی حکایت بیان تک پہنچی

زبانِ دل کی حکایت بیان تک پہنچی زمیں سے اُڑتی ہوئی آسمان تک پہنچی سُراغ سامنے آئے گا دشمنِ جاں کا جو میرے پائوں کی آہٹ مچان تک پہنچی وہ ایک بات جو صدیوں کی گرد میں تھی نہاں سوال بن کے مرے امتحان تک پہنچی لرز اُٹھے تھے دریچے حسین خوابوں کے کسی کی چیخ جو میرے مکان تک پہنچی سفر کا ذوق جو بیدار ہو گیا ہے نوید ہماری آبلہ پائی چٹان تک پہنچی

Read More

نوید مرزا ۔۔۔ درّۂ خاک جب اکڑتا ہے

درّۂ خاک جب اکڑتا ہے تب اُسے آسماں جکڑتا ہے روک سکتا ہے کون ہونی کو کیوں مقدر سے اپنے لڑتا ہے مفلسی جیب سے نہیں ہوتی شاہ بھی ایڑیاں رگڑتا ہے پیڑ سے وہ گلہ نہیں کرتا جو بھی پتّا خزاں میں جھڑتا ہے ایک مدّت کے بعد بھی نہ ملے فرق اس بات سے تو پڑتا ہے جو کہانی بھی لکھ رہا ہے نوید اپنا کردار اس میں گھڑتا ہے

Read More

نوید مرزا ۔۔۔ دو غزلیں

خاک کو عرش تو قطرے کو گہر کرتی ہے یہ کرشمہ بھی فقط اُس کی نظر کرتی ہے میں تو صدیوں کی مسافت سے پلٹ آتا ہوں میرے پیچھے تری آواز سفر کرتی ہے سانس کی لَے ابھی کچھ اور بھی مدّھم ہو گی لمحہ لمحہ یہ مجھے خاک بسر کرتی ہے کون اس دل میں اُترتا ہے گلابوں کی طرح کس کی خوشبو مری سانسوں پہ اثر کرتی ہے گردش وقت سنبھالے ہوئے پھرتی ہے مجھے وار دشمن کی طرح شام و سحر کرتی ہے اپنی ہی خاک سے…

Read More