محمد نوید مرزا ۔۔۔ کھلے ہیں آگہی کے مجھ پہ در آہستہ آستہ

کھلے ہیں آگہی کے مجھ پہ در آہستہ آستہ
ہوئی سارے زمانے کی خبر آہستہ آہستہ

ہمیشہ کروٹیں لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
زمیں محور سے ہٹتی ہے مگر آہستہ آہستہ

کسی آہٹ سے کب کوئی مکاں مسمار ہوتا ہے
چٹخ کر ٹوٹتے ہیں بام و در آہستہ آہستہ

بلندی کی طرف اُن کو ہوائیں لے کے جاتی ہیں
بناتے ہیں پرندے رہگزر آہستہ آہستہ

ہوا تبدیلیوں کی چل پڑی موسم بدلنے سے
ملیں گے اب نئے شام و سحر آہستہ آہستہ

خود اپنی ذات کے بارے میں بھی کب جانتا تھا میں
کھلے مجھ پر مرے عیب و ہنر آہستہ آہستہ

Related posts

Leave a Comment