نوید مرزا ۔۔۔ زبانِ دل کی حکایت بیان تک پہنچی

زبانِ دل کی حکایت بیان تک پہنچی
زمیں سے اُڑتی ہوئی آسمان تک پہنچی

سُراغ سامنے آئے گا دشمنِ جاں کا
جو میرے پائوں کی آہٹ مچان تک پہنچی

وہ ایک بات جو صدیوں کی گرد میں تھی نہاں
سوال بن کے مرے امتحان تک پہنچی

لرز اُٹھے تھے دریچے حسین خوابوں کے
کسی کی چیخ جو میرے مکان تک پہنچی

سفر کا ذوق جو بیدار ہو گیا ہے نوید
ہماری آبلہ پائی چٹان تک پہنچی

Related posts

Leave a Comment