علی اصغر عباس ۔۔۔ سلام

سیاہ بخت سے لمحوں کے کیا نصیب ہوئے
ترے لہو کی لپک سے ضیا نصیب ہوئے

مہ و نجوم محرم کے پہلے عشرے کے
فنا کی اَور سے نکلے، بقا نصیب ہوئے

عجیب تیرگی ظلمت کدے میں پھیلی تھی
حریف نور کے سارے خطا نصیب ہوئے

ضمیر جاگا تو اس کی پکار پر حُر بھی
بتانِ وقت سے چھوٹے، خدا نصیب ہوئے

کٹے تھے بازؤےعباس، مشک چھلنی تھی
مگر وہ اس پہ بھی خوش تھے، وفا نصیب ہوئے

کھلا تھا دشت مگر پھر بھی سانس گھٹتا تھا
مشامِ جاں سے ترے دم، ہوا نصیب ہوئے

کنارِ آب تھا معصوم تشنہ لب اصغر
فرات تیرے مقدر نہ بانصیب ہوئے

Related posts

Leave a Comment