کاشف واصفی ۔۔۔ بکھرا رہا ہوں کب سے بکھر ہی نہیں رہا

بکھرا رہا ہوں کب سے بکھر ہی نہیں رہا
اک شخص میرے دل سے اتر ہی نہیں رہا

مدت سے محوِ خواب ہیں پیہم سفر میں ہیں
بیدار ہو کے دیکھیے گھر ہی نہیں رہا

وحشت سرائے کس کے لیے کھول بیٹھیے؟
جب آئینے کو عکس کا ڈر ہی نہیں رہا

رکھوں گا کس نیام میں شمشیرِ خود شناس
پگڑی کا کیا کروں گا جو سر ہی نہیں رہا

آنکھوں پہ چھا گی ہے کدورت کی سرخ ریت
منظر کا حسن پیشِ نظر ہی نہیں رہا

بھر تو گیا ہے دید کا پیالہ وصال سے
میں کیا کروں کہ میرا جی بھر ہی نہیں رہا

کاشف اک عمر ہوگئی سجدہ ہے در بہ در
میری جبیں کے واسطے در ہی نہیں رہا

Related posts

Leave a Comment