آصِف عمران ۔۔۔ ہم سُخن ہُوئے خواب

ہم سُخن ہُوئے خواب

رات کاپچھلا پہر ہے اور گلی میں سناٹا زرد چاندنی کی چادر اوڑھے گہری نیند سو رہا ہے۔مَیں پلنگ پر لیٹا سوچ رہا ہُوں کہ مجھے نیند کیوں نہیں آرہی۔ یہ نیند کا پرندہ روشندان میں بیٹھا گھر کے دروازے پرنظریں جمائے کِس کے اِنتظار میں ہے جب کہ گھر کے ہر کمرے میں نیند بھری سانسوں کا پکا راگ ہر فردکے پلنگ پر بیٹھا میرے ساتھ جاگ رہاہے۔اِس راگ میں چند سانسوں کی تکرار سماعتوں میں گونج بن کر اپنی لَے پر رقص کر رہی ہے۔ نہ جانے کِتنی صدیوں سے زِندگی کا یہ گیت ایک ہی راگ میں جاری ہے۔ مگر میرے اندر بھی خاموشی کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور خواب آلود ہوائیں کِسی طوفان کو کمرے میں کھینچ کر لا رہی ہیں۔ پہلے ہی سحر انگیز سرگوشیاں میرے بِستر کی طرف رینگنے لگِیں پھِر نیند کے پرندے نے اُڑان بھر ی اور میری آنکھوں کی وادی میں کہِیں گُم ہوگیا۔ رات کے اِس سناٹے دار پہر میں اُس کے بدن کی خوشبو کی سرسراہٹ نے مجھے اپنے حِصار میں لینا شروع کر دِیا۔ اور اِس کے ساتھ ہی میرے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپیں سمانے لگِیں۔ تب دروازے پر ہلکی سی دستک کی صدا نے میری سماعت کی چادر پر اپنا پیغام پھیلا دِیا تو مَیںخود کو ہوا میں اُڑتا ہُوا محسوس کرنے لگا۔مجھے یُوں محسوس ہُوا کہ مَیں جہاں موجود ہُوں دراصل مَیں وہاں نہیں ہُوں، دُور ہوا میں دوڑتے ہُوئے گھوڑوں کے سُموں کی آواز۔۔۔ہم سُخن ہوتے ہُوئے جو ہر خواب کی آنکھوں میں اُتر رہی ہے۔ مَیں نظر اُٹھا کر دیکھتا ہُوں کہ وہ آگے بھی ہے۔۔۔وہی پیچھے بھی۔۔۔اور وہی درمیان پر بھی محیط ہے۔ جوہر چیز کو تھامے ہُوئے ہے۔ جو نہ تھکتا ہے نہ اُونگھتا اور نہ سوتا ہے۔ اِس جہان سے اُس کا جانے کب سے رِشتہ جُڑا ہُوا ہے۔ نیند کے اِس جہان میں ایک نئی دُنیا میرے اندر جاگ اُٹھتی ہے۔ دروازے پر دستک کی آواز کی رسی تھامے مَیں دروازے پر آتا ہُوں تو وہاں سفید گھوڑے پر سوار ایک اجنبی ہاتھ جوڑ کر عرض کرنے لگا کہ حضور آپ کا بُلاوا آیا ہے۔ آپ کرم کریں اور میرے ساتھ چلیں۔۔۔
مَیں نے دائیں بائیں دیکھا۔۔۔وہ اکیلا ہی ہے۔ گلی چاندنی میں نہائی ہُوئی ہے۔ مَیں نے پیچھے مڑ کر دیکھا دروازہ خود بخود بند ہوگیا۔۔۔
گویا مجھے جانا ہی ہے۔۔۔چاروں طرف سرمستی کی ہوائیں چلنے لگیِں۔
جانا کہاں ہے۔۔۔اور سواری۔۔۔مَیں نے اپنا سوال اجنبی کی طرف اُچھال دِیا۔
سواری حاضر ہے۔۔۔آپ آئیے۔۔۔مَیں نے آنکھ اُٹھا کر دیکھا تو ایک صحت مند سفید گھوڑا سواری کے لیے تیار کھڑا پایا۔۔۔مَیں گھوڑے پر سوار ہو کر اُس کے ساتھ چل دِیا۔ گھوڑے ہواؤں کے ساتھ بھاگنے لگے۔۔۔اِتنے تیز رفتار۔۔۔کہ روشنی کی رفتار بھی ساتھ نہ دے سکی۔۔۔ایک جگہ تو ٹاپوں کی آواز بھی ہواؤں میں گُم ہوگئی۔۔۔مَیں نے لگام کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔۔۔ گھُپ اندھیرا۔۔۔سمت کا کچھ پتہ بھی نہ چلا۔۔۔اور پھِر ایک بستی کی
اُونچی حویلی کے سامنے جا رُکے۔۔۔دروازہ کھُلا اور وہ مجھے کمرے میں پہنچا کر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
کمرے میں پلنگ پر لیٹی ایک خوب صورت لڑکی۔۔۔لمبے گھنے سیاہ بال جو تکیے پر سے ہو کر زمین کو چھُو رہے ہیں۔۔۔مُنہ پر باریک نقاب۔۔
آنکھیں بند۔۔۔اور ایک پھُولدار چادر سے اپنے جِسم کو ڈھانپ رکھا ہے۔ مخروطی اُنگلیوں والا خوب صورت ہاتھ۔۔۔سینے پر پڑا سانسوں کے زیرو بم کے ساتھ حرکت کر رہا ہے۔ مَیں پلنگ کے قریب پڑی کُرسی پر بیٹھ کر غور سے اُسے دیکھنے لگا۔ میری نظروں کے لمس نے اُس کی گالوں پر اپنا نام لکھا تو اُس نے آنکھیں کھول دِیں۔تب اُس کی نظروں کی گرماہٹ سے میرا دِل پگھل کر اُسکی آنکھوں کے راستے اُس کے دِل کے آنگن میں اُتر گیا۔۔۔لمبے سیاہ بالوں والی لڑکی پلنگ سے اُتری، دھیمے دھیمے قدم اُٹھاتی ہُوئی میری طرف بڑھی اور بازُو پھیلا کر میرے چہرے کو اپنے بازوؤں میں باندھ لِیا۔ وہ اپنے سرکو جھُکا۔۔۔کر میری پیشانی پر ہونٹوں کے دائرے کی مُہر ثبت کر تی ہے۔ پھِر گال چُومتی ہے اور پھِر ہونٹ۔۔۔اور پھِر وہ دیوانوں کی طرح مجھے چُومتی ہے۔ اور پھِر سِسکتے سِسکتے رونے لگتی ہے۔ مَیں اُس کی بانھوں میں پگھلنے لگا اور اپنے کانپتے ہُوئے ہاتھوں سے لڑکی کے سیاہ گھنے بالوں سے کھیلنے لگتا ہُوں۔۔۔پھِر دو پرچھائیاں بانھوں میں بانھیں ڈالے دیوار پر آویزاں قد آور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اُس پر نظریں گاڑ دیتی ہیں اور پھِر۔۔۔
اُس نے سرگوشی کی۔۔۔ مَیں نہ کہتی تھی کہ رات کا اُجالا زِندگی ہے۔۔۔تُم آگئے تو مَیں نہال ہوگئی ہُوں۔ مَیں تو مُدتوں سے تمھارا اِنتظار کر رہی ہُوں۔۔۔
جب تُم نہیں ہوتے تو تنہائی مجھے کاٹ کھاتی ہے۔ میرا زِندہ گوشت کھا جاتی ہے۔ مَیں تڑپتی ہُوں، تُمہیں یاد کرتی ہُوں۔ تیری بانھوں میں چھپ جانا چاہتی ہُوں اب تیرے من کے سِوا میرا کوئی ٹھکانہ نہیں۔۔۔مَیں نے آج تک زِندگی میںہر چیز اپنی دُعاؤں کے وسیلے سے حاصل کی ہے۔ لیکن اب مَیں تمھارے لیے دُعا مانگنے سے ڈرتی ہُوں کہ اگر میری دُعا قبول نہ ہُوئی تو ہِجر کا عذاب کیسے کاٹُوں گی۔ میرے اندر ایک عجیب سی تشنگی ہے۔۔۔جو رفتہ رفتہ صحرا میں بدلتی جارہی ہے۔
وہ خاموش ہُوئی۔۔۔مَیںبھی خاموش۔۔۔مَیں نے پیار سے اُس کا ہاتھ تھاما۔۔۔
ہم دونوں کے سائے آئینے میں لہر اکر ایک دُوسرے میں تحلیل ہوگئے۔
خاموشی۔۔۔اُداسی۔۔۔اور تنہائی۔۔۔اُس کے بدن کا صحرا میری آنکھوں میں اُتر آیا ہے۔ اُداسی کی لُو چلی تو میری آنکھیں ریت سے اٹ گِئیں۔ اور درد کی چُبھن میرا مقدر بن گئی۔ مَیں نے اندر سے اپنے آپ کو خالی خالی محسوس کِیا۔ اُس خالی پن کی شِدت کو کم کرنے کے لیے مَیں نے اُس
کے ہاتھ کو آہستہ سے دبایاتواُس کی سانسوںکی ریت اور گرم لُو سے بھرا ہُوا جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا۔
کیا تُم نے کبھی اپنے ہاتھوں کو غور سے دیکھا ہے؟ مَیں نے سوال اُس کے چہرے کی تختی پر لکھ دِیا۔ جانتی ہو تُم نے میری خوشیوں کو اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں قید رکھا ہے۔۔۔تمھارے یہ ہاتھ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے۔ سُوکھے سڑے ہاتھ ہیں تُمہیں کیا کہتے ہیں۔۔۔اُس نے ہونٹوں کی کمان سے لفظوں کے تِیر چھوڑے۔ مجھے ایک بات تو بتاؤ کہ تُم اِتنے بھاری دروازے کو کھول کر میرے وجود میں تحلیل کیسے ہوگئے۔۔۔؟ پتہ نہیں کِتنے دستک دیتے ہُوئے راستوں میں لاپتہ ہوگئے۔۔۔کمرے میں گہری خاموشی نے سیاہ خیمہ تان لِیا۔ اُس کی آنکھوں میں نیند نے سرگوشیاں شروع کر دِیں تو اُس کی پلکوں نے آنکھوں کا دروازہ بند کر دِیا اور مَیں کمرے سے باہر نکل آیا۔رینگتی ہُوئی رات پچھلے پہر کے آخری کنارے سے جا لگی۔ مَیں اپنی دُنیا میں واپس آیا تو نیند سے بوجھل آنکھیں۔۔۔تھکن سے چُور۔۔۔سامنے نہ گھر ہے نہ گھوڑا ہے، نہ بستی۔۔۔نہ لڑکی۔۔۔کمرے میں مکمل خاموشی۔۔۔پھِر مجھے اچانک یاد آیا کہ میڈم بُخاری نے کِتنے دِن پہلے تاکید کی تھی کہ مَیں کِسی ماہرِ نفسیات کو مِلُوں اور انھیں بتاؤں کہ ماہرِ نفسیات نے کیا کہا ہے۔۔۔ٹھیک ہے آج کالج سے فارغ ہو کر ہر صورت مَیں ڈاکٹر سے وقت لیکر مُلاقات کرُوں گا۔ کیوںکہ میرے ساتھ اکثر ایسے ہوتا ہے کہ جب شام کے گہرے سائے درو دِیوار سے اُتر کر میرے کمرے میں رات کا لباس پہن لیتے ہیں تو میرے اندر کی تمام پرچھائیاں باہر نکل آتی ہیں۔ اور میرے ارد گرد ایک نئی دُنیا جنم لے لیتی ہے۔اُس دُنیا کی حالت عجیب ہوتی ہے۔ زمین اور آسمان کی حدیں مِلتی ہیں۔ واقعہ اور خیال ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں اور مَیں محض ایک رُوح کی مانند اُن کے درمیان موجود ہوتا ہُوں۔وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے تو آئینے کی آنکھیں پگھل جاتی ہیں۔ ہمارے چاروں اور اندھیرا ہی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اور مَیں سوچتا ہُوں کہ اب جو کچھ میرے سامنے ہو رہا ہے وہ کِسی دوسری دُنیا میں بھی ہو رہا ہوگا۔ جہاں ہمارے دوسرے وجود موجود ہیں۔۔۔ایک اور دُنیا۔۔۔ایک اور اپنا آپ۔۔۔اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور یُوں ایک دوسری دُنیا میں منتقل ہو جانے پر بہت سے واہمے حقیقت بنتے ہیں اور حقیقتیں واہمہ۔۔۔اور پھِر اِس طرح False Perceptionsکا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جِن کی نہ کوئی اِبتدا ہے نہ اِنتہا۔۔۔یہ لمحہ مجھے کہِیں ٹھہرنے نہیں دیتا۔ میرے سامنے اِنسانی شکلیں اُبھرنے لگتی ہیں اور کبھی کبھی یہ شکلیں خوفناک چہروں میں بدل جاتی ہیں۔۔۔مَیں خوفزدہ ہو جاتا ہُوں۔۔۔اِس خوف کی شِدت کو کم کرنے کے لیے مَیں اُن سے گفتگو کرنے کی کوشش کرتا ہُوں۔مگر وہ کوئی جواب نہیں دیتِیں۔۔۔بدلتی شکلیں۔۔۔ہوا میں تیرنے لگتی ہیں اور مَیں اپنے ہی ایٹوپیا میں محصور ہو جاتا ہُوں۔ اور میرے سامنے دو دُنیائیں ایک دوسرے میں ضم ہونے لگتی ہیں۔
صُبح ہونے پر رات کی دُنیا غائب ہو جاتی ہے اور مجھے رات کی واردات پر حیرت ہوتی ہے۔ کیوںکہ صُبح ہر چیز اپنی جگہ پر پڑی اپنے آپ میں موجود ہوتی ہے۔ سب سے بڑا عذاب تو اُس واردات کے ثبوت کی خواہش ہے۔ مگر خوابوں کی دُنیا میں ثبوت نہیں مِلتے۔۔۔اِسی لیے خوابوں کی یہ دُنیا صِرف میرے اندر ہی سانس لیتی رہتی ہے۔ یہ خواب مجھ سے ہم سُخن ہوتے ہیں۔ مگر دِن کی روشنی میں حقیقت جاننے کے لیے ثبوت تلاش کیے جاتے ہیں۔ آخر ہمیں کِسی دُنیا میں تو زِندہ رہنا ہے مگر یہ دُنیا مجھے اپنی ذات کے اندر نہیں بلکہ باہر ہی مِلے گی۔ اور مَیں اُس کی تلاش میں نفسیات کے زرِیں اصولوں اور تھیوریوں کو آزمانے کی کوشش کرتا ہُوں۔ نفسیات کی کتابیں پڑھتے پڑھتے میں اِنسانوں کی نفسیات پڑھنے کی کوشش بھی کرتا ہُوں۔ مگر آج تک اپنے کالج کی کولیگ نفسیات کی پروفیسر نِداؔ بُخاری کی اُلجھی ہُوئی فطرت کے تار و پور کو یکجا کر کے کِسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا اور نہ ہی مَیں اپنا نفسیاتی تجزیہ کر سکا ہُوںکہ مَیں میڈم بُخاری کے بارے میں کیا کیا اور کیوں سوچتا رہتا ہُوں۔ میرے اندر اِس اُلجھی ہُوئی گتھی کے تہہ در تہہ سوالوں کو سلجھانے میں نفسیات کا کوئی قاعدہ، کوئی کُلیہ میری مدد نہیں کر پا رہا۔ میڈم بُخاری شعبہ نفسیات کی ہیڈہیں اورمَیں شعبہ اُردو کا ایک جونئیر لیکچرار،لیکن جب سے مَیں نے کالج جوائین کِیا ہے میرے اندر ہلچل مچی ہُوئی ہے۔ مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ مَیں میڈم بُخاری کو بہت مُدت سے اور بہت قریب سے جانتا ہُوں۔ ہم دونوں نے بہت سا وقت ایک ساتھ گزارا ہے، وہ میرے خوابوں میں دبے پاؤں آتی ہے اور خاموشی سے نکل جاتی ہے۔ اُن سے مُلاقات بہت کم ہوتی ہے۔ کبھی سٹاف روم میں۔۔یا کبھی کِسی فنکشن میں۔۔اُن کی مقناطیسی شخصیت نے اپنی طرف کھینچا تو مَیں نے نفسیات کے لیکچر ہال میں اُن کی کلاس میں جانا شروع کر دِیا۔
اُس دِن مَیں نے بڑا جُرأت مندانہ فیصلہ کِیااور لیکچر ہال کے دروازے کے قریب پہنچا تو خاموشی کا سینہ چیرتی ہُوئی ایک کھنکتی آواز میری سماعت کی دیوار سے چپک گئی۔ طلبہ و طالبات اِنہماک کی دُنیا میں کھوئے لیکچر سُن رہے تھے۔ ہال میں مکمل خاموشی تھی۔ مَیں بھی خاموشی کی چادر اوڑھے پچھلے دروازے سے ہال میں داخل ہُوا اور ایک خالی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کئی طلبا نے گردنوں کو میرے بیٹھنے کی ذرا سی آواز کی طرف گھُما کر دیکھا۔ میڈم بُخاری بھی مجھے دیکھ کر کچھ پوچھنے اور نہ پوچھنے کی اُلجھن کو جھٹک کر اپنے لیکچر کی طرف متوجہ ہو گئِیں۔اکثر ایسا ہوتا کہ نفسیات میں دِلچسپی رکھنے والے یا کچھ سیکھنے کا شوق رکھنے والے جونئیر لیکچرار بھی آکر بیٹھ جاتے کیوںکہ اُن کے لیکچر میں بہت گہری سنجیدہ اور فکر انگیز باتیں ہوتِیں۔ انھیں اپنے سبجیکٹ پر مکمل عبور اور فلسفہء حیات کا مکمل ادراک بھی تھا۔ کلاس میں سب سننے والے بالکل مہبوت ہو کر سنتے جیسے کِسی جادُو کے حِصار میں ہوں۔ میڈم کا وسیع مطالعہ ہے نہ جانے کِتنے مُلکوں میں گھوم چکی ہیں۔ کہِیں کِسی سیمینار کے لیے۔۔کہِیں کِسی کانفرنس کے لیے۔۔اور کہِیں سپیشل لیکچر کے لیے۔۔اور پھِر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میڈم لیکچر ختم کر کے چلی بھی جاتیِں مگر مَیں دیر تک ہال میں بیٹھا رہتا۔ در اصل مجھے محسوس ہوتا کہ وہ کمرے میں ہی موجود ہیں۔ اُن کی آواز بھی موجودہوتی۔ اِلفاظ ارد گرد دھڑکتے ہُوئے میرے دِل کو چھُو تے۔ کبھی وہ بولتے بولتے میری کُرسی کے قریب آتِیں تو اُن کے سانسوں کی گرماہٹ سے پگھل جاتا اور اُن کے بدن کی خوشبو کی بارش میں بھیگ جاتا۔۔۔مَیں بانھیں پھیلا دیتا اور وہ بھی بھیگے بدن کے ساتھ میرے سینے سے چپک جاتی اور مَیں بھُول جاتا کہ مَیں کہاں ہُوں۔ کلاس میں موجود ہوتے ہُوئے بھی مَیں یہاں موجود نہ ہوتا بلکہ اُن کے کمرے میں اُن کے سامنے بیٹھا اُن کے ہاتھوں کو دیکھتا رہتا۔ میرا دراصل مسٔلہ ہے کہ مَیں اُن کے خوب صورت ہاتھوں اور پتلی پتلی مخروطی اُنگلیوں کے عِشق میں کھو گیا ہُوں۔ وہ جہاں بھی ہوتی میری نظریں اُنکے ہاتھوں پر مرکوز رہتی۔۔۔کلاس روم میں۔۔۔سٹاف روم میں۔۔۔کِسی بھی میٹنگ میں۔۔۔مجھ میں نظریں مِلانے کی ہِمت تو نہ تھی مگر کوشش کرتا کہ زیادہ سے زیادہ وقت اُن کے آس پاس گزاروں۔ بات چیت بھی کم کم ہی ہوتی۔
اپنے کمرے میں اکثر کتابیں پڑھتے پڑھتے اپنے ماحول سے غافل ایک ہی خیالی جُست میں میڈم بُخاری کے کمرے میں پہنچ جاتا اور اُن کے سامنے بیٹھ کر خود کو اُس کے برابر کا پروفیسر سمجھنا شروع کر دِیا۔۔۔اعلیٰ تعلیم یافتہ۔۔۔بہت پڑھنے لکھنے والی شخصیت۔۔۔جِس کے لکھے ہُوئے مضامین اعلیٰ معیاری رسائل اور اخبارات میں شائع ہوتے۔۔۔میرے لکھے ہُوئے تبصرے مستند رائے کے حامل سمجھے جاتے۔ کبھی کِسی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شرکت کرتا تو اپنے ساتھ بیٹھے ہُوئے پینل کے دوسرے لوگوں کو بولنے تک نہ دیتا۔اُن سے بات چیت کرتے ہُوئے بھاری بھرکم لفظ اِستعمال کرتا، بڑے بڑے فلاسفراور دانشوروں کے اقوال اِستعمال کرتا۔ ہر موضوع پر بات کرنے کی کوشش کرتا۔ یُوں مَیں سمجھتا کہ مَیں میڈم بُخاری کو اپنی قابلیت سے مرعوب کرنے میں کامیاب ہوگیا ہُوں۔مَیں اُن کے ہاتھوں کو دیکھتا رہتا اور تعریف بھی کرتا۔۔۔وہ زیر لب مُسکراتی رہتی مگر مجھے کبھی بھی موقع نہ مِلا کہ مَیں اُن کی ذات کے اندر جھانک سکُوں اور نہ ہی یہ جان سکا کہ میڈم نے اپنی ذات کے گرد اِتنی مضبوط فصیل کیوں کھڑی کر رکھی ہے۔بات چیت ہوتی مگر باتیں ایک محدود دائرے میں گھومتی رہتِیں۔
ایک دِن ہم دونوں سٹاف روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے، مَیں نے اچانک گفتگو کے بھاگتے ہُوئے گھوڑے کی لگام میڈم کی ذاتی زِندگی کے دروازے کی طرف موڑ دی اور آہستہ سے کہا میڈم جی۔۔! آپ اکیلی ہوسٹل میں رہتی ہیں،آپ کے بہن بھائی اپنے اپنے گھروں میں بیوی اور بچوں کے
ساتھ ہنسی خُوشی رہ رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی نہیں سوچا کہ آپ کا بھی ایک گھر ہو۔۔۔ساتھی ہو۔۔۔؟
اُس کی آنکھوں کی جھیل سے دو موٹے موٹے آنسو زبردستی گالوں پر آٹھہرے۔۔۔ خاموشی اور اُداسی کی دبِیز چادر ہم دونوں کے درمیان تن گئی۔۔۔کِتنی دیر ہم خاموشی کی بہتی ندی کے دونوں کناروں پر آمنے سامنے بیٹھے رہے۔۔۔اُس کی ذات کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر آنکھوں کی جھیل میں بند باندھنے لگا۔پھِر مَیں نے ہِمت کر کے معذرت کے لفظوں کی قینچی سے خاموشی کا پردہ چاک کِیااور کہا۔۔۔میڈم جی۔۔۔سوری۔۔۔مجھے اس موضوع پر بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔۔
مگر اب وہ سنبھل چکی تھی۔دھیمی آواز نے اُن کی ذات کا دروازہ کھول دِیا۔
نہیں۔۔منصور کوئی بات نہیں۔۔۔تُم یہ بات نہ بھی کرتے تو کِتنے اور لوگ ہیں جو روز یہی قِصّہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔میرے عزیزو اقارب۔۔۔اور دوست۔۔۔ا ب مَیں کِس کِس کو بتاؤں کہ جب تک پروفیسر اعجاز واپس نہیں آجاتے مَیں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔۔۔تُمہیں تو پتہ ہی ہے کہ پروفیسر اعجاز کا نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے۔ اُن کو لاپتہ ہُوئے پانچ سال ہونے کو آئے ہیں لیکن کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کہاں لا پتہ ہوگئے۔۔۔زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ اُن کی والدہ اِسی غم میں اِس دُنیا سے کوچ کر گئِیں۔۔۔نہ وہ ماں کا مُنہ دیکھ سکے اور نہ ہی جنازے کو کندھا دے سکے۔۔۔اُداسی کے اُس ماحول میں اُن کی باتیں آہستہ رَو ندی کی طرح وقت کی لہروں پر تیرتی رہیں۔
مجھے یہ تو معلوم ہوگیا تھا کہ ہمارے کالج کے ایک پروفیسر لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ میڈم بُخاری کے اُن کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔ وہ اِنسانی حقوق کے زبردست علم بردار اوردانشور تھے۔ بہت سی سماجی تنظیموں کے ساتھ وابستہ تھے اور اخبارات میں حالات ِ حاضرہ پر مضامین لکھتے تھے۔ اُنکے لاپتہ ہونے پر بہت سی سماجی تنظیموں اور شخصیات نے قانون نافذ کرنے والے ہر اِدارے کے دروازے پر دستک دی۔۔۔کئی این جی اوز اور مختلف اِنسانی حقوق کی تنظیموں نے لاپتہ افراد کے لیے زبردست مہم چلائی۔۔۔ سوشل میڈیا پر اُن کی رہائی کے لیے تحریک چلائی۔ حکومت اور کئی اِداروں کی ناقص کارکردگی کو تنقید کا نِشانہ بنایا۔۔۔اِنصاف کی خاطر عدالتوں کے دروازے پر دستک دی۔۔۔پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دِیا۔۔۔مگر نتیجہ صِفر۔۔۔
پروفیسر اعجاز کی رہائی کی مہم میں مَیں نے بھی بڑھ چڑھ کر حِصہ لِیا۔ کیوںکہ مَیں اُن کے بغیر خود کو ادھورا سمجھتی ہُوں۔ یہ سچ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ اُن کی جُدائی نے مجھے سُوکھے پتوں کی طرح بکھیر دِیا ہے۔ میرے اندر ایک خلا پیدا ہوگیا ہے۔ نہ جانے یہ خلا کب پورا ہوگا۔دراصل مَیں عِشق سے زیادہ عِشق کی شِکار ہو گئی ہُوں۔ وہ آہستہ آہستہ سرگوشیوںکے انداز میں بول رہی ہے اور مجھے بہت قریب ہو کر کوشش سے اُن کے لفظوں کی مچھلیوں کو اپنی سماعت کے جال میں پکڑنا پڑ رہا تھا۔
منصور۔۔! کیا یہ نا اِنصافی نہیں کہ ایک بے گُناہ شہری جو کہ اُستاد بھی ہے کو معاشرہ کی نظروں سے غائب کر دِیا جائے؟ صِرف اِس جُرم میں کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز کو سنتا ہے اور لوگوں کو بتاتا ہے کہ سچ کیا ہے۔۔۔سچ بولنے کی اِتنی بڑی سزا۔۔۔مَیں توٹوٹ پھوٹ گئی ہُوں۔۔۔میڈم ! سُنا ہے کہ جِس دِن پروفیسر صاحب لا پتہ ہُوئے اُس شام آپ بھی اُن کے ساتھ تھِیں۔۔ہاں۔۔یہ بات صحیح ہے۔۔۔اُس دِن شہر میں ایک این جی او نے ’’دہشت گردی کے تدارک کا مسٔلہ‘‘ کے موضوع پر ایک مذاکرے کا اہتمام کِیا تھا۔ صدارت پروفیسر اعجاز صاحب کو کرنی تھی۔ انھوں نے مجھے بھی ساتھ چلنے کا کہا۔۔۔مَیں فارغ تھی اِس لیے ساتھ چلی گئی۔
جب خطبۂ صدارت کا وقت آیا تو وہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گئے اور نہ چاہتے بھی انجانے میں سُرخ لائن عبور کر گئے۔۔۔انھوں نے تقریر کرتے ہُوئے کہا کہ حکومت کی کمزوری اور غیر جمہوری رویّے کی وجہ سے دہشت گردی کے عفریت نے معاشرے کے جِسم میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ دیے ہیں۔ معاشرے میں پائی جانے والی نا اِنصافی، عدم روا داری، تنگ نظری اور عدم برداشت سے دہشت گردی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اِنسانی جانیں رزق ِ خاک ہورہی ہیں۔ مگر حکومت کو کوئی فکر نہیں ہے بلکہ عوام کو زبانی جمع خرچ کی طفیل تسلیوں کے لیے اعلیٰ حکام تواتر کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے۔ لیکن دوسرے ہی دِن دہشت گردٹوٹی ہُوئی کمر کے ساتھ پہلے سے زیادہ بڑی دہشت گردی کی واردات کے طمانچے کا نِشان حکومت کے چہرے پر ثبت کر دیتے ہیں۔اور نِشانہ کوئی بچوں کا سکول، کوئی مسجد، کوئی گرجا گھر،کوئی پولیس چوکی یا سکیورٹی اہلکاروں کا کوئی ناکہ یا کھیلتے بچوں سے بھرا پارک۔۔۔اور حکومت تماشائی بنی ایک اور بیان داغ دیتی ہے۔ یا شہید ہونے والے لوگوںکے ورثہ کے لیے اِمدادی رقم کا اعلان کر دیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اُس کا فرض ادا ہوگیا۔ اِس تنقیدپر ہال میں تالیاں بجتی رہِیں۔اور پروفیسرصاحب جوش سے بولتے رہے کہ حکومت کی پالیسیاں واضح نہیں بلکہ دوغلی ہیں۔ مُلک میں جگہ جگہ مذہبی شِدت پسندی کی نرسریاں پرورش پارہی ہیں۔ فرقہ واریت اور اِنتہا پسندی کی آگ بھڑک رہی ہے۔ کئی لوگ مذہبی جوش ِ جذبات میں آگ و خون کے اِس کھیل میں چار دہائیوں سے اپنی ہی تباہی کا باعث بن رہے ہیں اور روکنے والا کوئی نہیں۔مختلف جگہوں پر دہشت گردوں کے سہولت کار بیٹھے ہُوئے ہیں مگر اُن کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔۔۔حکومت نا اہل لوگوں کا ٹولہ ہے جِس کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں۔ وہ اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔۔۔تقریر ختم ہُوئی تو لوگوں نے زبردست جوش و خروش دِکھایا۔۔۔اور پروفیسر کو دوسرے کمرے میں چائے کے لیے لے گئے۔۔۔جہاں اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے۔ کئی لوگوں نے پروفیسر صاحب کو مبارکباددی کہ بہت اچھی تقریر کی ہے۔ حکومت کا اصلی چہرہ عوام کو
دِکھایا ہے۔۔وہ بھی بہت خوش تھے کہ جو بات دِل میں تھی زبان پر لے آئے۔
مَیں نے دیکھا کہ دو اجنبی اجنبی سے آدمی پروفیسر صاحب کے پاس کھڑے ہیں۔ مجھے اُن کی حرکات مشکوک سی لگِیں۔ شاید ہماری باتیں
ریکارڈ کر رہے تھے۔ پھِر ایک شخص نے سرگوشی کی۔۔۔پروفیسر صاحب آج اچھا نہیں ہُوا۔۔۔
کیا اچھا نہیں ہُوا۔۔۔؟پروفیسر صاحب نے اُونچی آواز میں کہا۔۔۔آپ کون ہیں۔۔۔؟ آپ سے تعارف نہیں ہُوا۔ تعارف کو چھوڑیں جی۔۔۔ اب ملاقاتیں ہوتی رہیں گی۔۔۔کئی لوگ اُس کی طرف متوجہ ہُوئے مگر وہ یہ کہتے ہُوئے کمرے سے نکل گیا۔۔۔
کون تھا یہ۔۔۔؟ کئی آوازیں ہوا میں تیرنے لگیِں۔۔۔ہوگا کوئی حساس اِدارے کا بندہ۔۔۔
اعجاز صاحب کے چہرے پر پریشانی کا ایک سایہ لہرایا لیکن وہ جلد پر سکون ہوگئے۔مگر مَیں فکر اور پریشانی کے اندھیرے کنوئیں میں اُترتی چلی گئی۔
چائے ختم ہو گئی مگر گفتگو کا سلسلہ ابھی جاری تھا۔ مَیں نے گھڑی دیکھی اور کہا کہ چلیں۔۔۔انھوں نے کہا کہ آپ چلو۔۔۔مَیں دوستوں کے ساتھ گپ شپ کے بعد آتا ہُوں۔۔۔
اچھا مَیں چلتی ہُوں۔۔۔آپ بھی جلد آجانا اور گھر پہنچ کر اِطلاع کر دینا۔۔۔
خُدا حافظ۔۔۔انھوں نے مسکراتے ہُوئے کہا لیکن مجھے آواز کِسی گہری غار سے آتی محسوس ہُوئی۔ مَیں بھی خُدا حافظ کہتے ہُوئے کمرے سے نکل آئی۔۔
باقی لوگ بھی اپنے اپنے گھروں کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ سب سے آخر میں پروفیسر صاحب اپنے دوست کے ساتھ باہر نکلے اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگے۔۔۔مگر وہ نہ اپنی گاڑی تک پہنچ سکے اور نہ ہی آج تک گھر پہنچے ہیں۔۔۔دوسرے دِن اُن کے دوست نے کالج آکر بتایا کہ جب ہم جُدا ہو کر اپنی اپنی گاڑی کی طرف بڑھے اور مَیں اپنی گاڑی کے قریب پہنچا تو ایک تیز رفتار گاڑی کی پوری قوت سے بریک لگنے کی آواز پر مَیں نے مڑ کر دیکھا کہ چار
نقاب پوش لوگوں نے پروفیسر صاحب کو اپنی گاری میں ڈالا اور رات کے اندھیرے میں گم ہوگئے۔۔۔مَیں دیکھتا ہی رہ گیا۔
اگلے دِن اُن کے کئی دوست اور گھر والے پولیس اسٹیشن گئے مگر ایف آئی آر درج نہ ہو سکی۔ ہم تو آج تک اُن کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔۔۔خُدا کرے وہ خیریت سے ہوں۔اور اپنے گھر واپس آجائیں۔۔۔ مَیں خاموشی سے اُن کی باتیں سُن رہا تھا۔ ہمیں وقت کا احساس بھی نہ ہُوا۔۔۔اچانک ایک لڑکی سٹاف روم میں داخل ہُوئی اور میڈم سے پوچھا کہ آپ کلاس۔۔۔چلو مَیں آرہی ہُوں۔۔۔میڈم نے اُس کی بات کاٹ دی۔ پھِر خاموشی سے اپنا بیگ اُٹھا کر کلاس روم کی طرف چل دِیں۔
مَیں دیر تک بیٹھا سوچتا رہا کہ اُس نے کِس اُمید پر اپنے آج کے زخم زخم بدن کو اِنتظار کی صلیب پر لٹکا رکھا ہے۔ لاپتہ ہونے والوں کے قریبی عزیزوں کو تو مَیں نے اِنتظار کا عذاب جھیلتے ہُوئے دیکھا ہے۔کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت دباؤ کی صورت میں لاپتہ شخص کی لاش کِسی ویران سڑک کے کنارے پڑی مِل جاتی ہے۔ مَیں اپنے پرانے محلے میں رہنے والے ماسٹر لعل دِین کو جانتا ہُوں جِن کا جوان بیٹا بھی لاپتہ ہو گیا تھا۔ جو کہ کالج میں پڑھاتا تھا۔ اخبارات میں حالات ِ حاضرہ پر سیاسی اور سماجی مسائل پر مضامین لکھتا تھا۔ بہت سے لوگ اُن کے مضامین کو پسند کرتے تھے مگر کئی حلقے اُس کے بیباک تبصروں کو پسند کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ چند دِن ہُوئے مَیں اپنے ایک عزیز کو مِلنے پرانے محلے میں گیا۔ اپنے عزیز کی رہائش والی گلی تک پہنچا تو گلی کے موڑ پر ماسٹر لعل دین مِل گیا۔ وقت کی مار کھاتے کھاتے اپنے لا پتہ بیٹے کے اِنتظار میں بڑھاپے کی دہلیز پر آکھڑا ہُوا تھا۔ دُکھ کی بھاری گٹھری نے اُس کی کمر دوہری کر دی ہے اور وہ بڑی مشکل سے لاٹھی کے سہارے چلتا ہے۔اُس نے بھی بیٹے کو گلی گلی شہر شہر ہر ممکن جگہ پر ڈھونڈا مگر ناکام رہا۔ہر اِدارے کے دروازے پر دستک دیتا بھٹک رہا ہے۔ غربت اور مایوسی نے مستقل طور پر اُس کے گھر میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ مگر وہ اب بھی گلی میں مِلنے والے ہر آدمی کے پاس رُک کر اپنی موتئے سے دھندلائی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اُسے غور سے دیکھتا ہے۔ پھِر مایوسی سے سر ہِلادیتا ہے۔ وہ ہر بندے میں اپنے بیٹے کو تلاش کرتاپھِر رہا ہے۔ کئی لوگ اُسے پاگل کہتے ہیں۔ وہ میرے پاس بھی آ کر رُک گیا۔۔۔مجھے اُس سے ہمدردی ہونے لگی۔ مَیں اُسے تسلی دینے کے لیے اُس سے باتیں کرنے لگا۔۔۔مَیں نے ماسٹر صاحب سے پوچھا کہ بیٹے کا حُلیہ تو بتاؤ۔۔۔اُس نے جیب سے بہت ہی پرانا تہہ شُدہ اخباری تراشا دِکھایا۔۔۔
’’پروفیسر اعجاز‘‘۔۔۔تصویر دیکھ کر مجھے ۴۴۰وولٹ کا جھٹکا لگا۔۔۔ مگر جلد سنبھل گیا اور کہا،
ماسٹر جی اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ اور بھی بتائیں۔۔۔
اُس نے دھندلائی، گدلائی آنکھوں سے مجھے غور سے دیکھا پھِر جیسے خود سے باتیں کرنے لگا۔ وہ میرا اکلوتا لڑکا ہے۔ مَیں نے بہت محنت سے اُسے پڑھایا لکھایا۔ پھِر وہ پروفیسر بن گیا۔۔۔اور میری پہنچ سے باہر ہوگیا۔۔۔اُس کی اُڈیکن ہار ماں کی آنکھوں میں اُڈیک۔۔۔اِنتظار کے پھانسی گھاٹ پر دھری لاش۔۔۔گھر کی دہلیز پر بیٹھی بیٹھی قبر میں اُتر گئی۔۔۔اور اُسکی بیوی اور بچہ۔۔۔اُس کی آنکھیں پُر نم ہو گئِیں۔۔۔اُس سے بڑھ کر میرے لیے سننے کی کوئی حاجت نہ رہی۔ مَیںتیزی سے آگے بڑھ گیا۔۔۔حقیقت کی تیز آندھی نے مجھے پریشانی کے اندھیرے میں دھکیل دِیا۔۔۔مَیں میڈم بُخاری کے لیے بہت پریشان ہوگیا کہ وہ کِس سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہیں۔پتہ نہیں انھیں پروفیسر اعجاز کی بیوی اور بچے کے بارے میں عِلم بھی ہے یا نہیں۔۔۔اگر نہیں تو یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔سر اعجاز کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔مجھے میڈم بُخاری سے شدیدہمدردی ہونے لگی کہ سراعجاز اُسے دھوکا دے رہے تھے۔ کالج میںکئی دِن تک میڈم سے ملاقات نہ ہُوئی، مَیں اُن سے مِلنے کی خواہش کا گلا گھونٹ کر خود ہی سوچتا رہتا کہ اُن سے مِلوں گا تو کیا کہوں گا۔۔۔
اگرچہ یہ اُن دونوں کا بالکل ذاتی مسٔلہ ہے مگر اِس مسٔلے نے میرے ذہن میں ہلچل مچا دی۔ پہلے پہل وہ میرے ذہن کے ایک گوشے میں خاموش بیٹھی رہتی۔۔۔وہ مجھے بہت اچھی بھی لگتی ہیں اور اُن کے ہاتھ تو۔۔۔میری کمزوری بن چکے ہیں مگر جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں مَیں نے محسوس کِیا کہ اُس کی یاد نے میرے ذہن کے آنگن میں اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیےہیں اور آزادی سے گھوم رہی ہے۔۔۔وقت کے گزرتے لمحوں کے ساتھ اُس کی یاد میرے شعور کے خانے میں سرگوشیاں کرتے ہُوئے ذہن کی دیواروں پر خراشیں ڈالنے لگی ہے۔کئی دِن اِسی کشمکش میں گزر گئے۔ تب ایک دِن میرے قدم خود بخود نفسیات کے لیکچر ہال کی طرف اُٹھ گئے۔۔۔ وہ بڑی توجہ سے لیکچر دے رہی تھِیں۔ ہال میں مکمل خاموشی کا راج تھا سِوائے میڈم بُخاری کی آواز کے۔۔۔مَیں خاموش بیٹھا اُن کو مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔۔۔ذہن اُلجھا ہُوا۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا بول رہی ہیں اور مَیں کیا سُن رہا ہُوں۔۔۔
صِرف ایک خیال۔۔۔کہ میڈم خود سے زیادتی کر رہی ہیں۔مَیں کیسے بتاؤں کہ مَیں اُن کے لیے کِتنا پریشان ہُوں۔۔۔مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب پیریڈ کا وقت ختم ہوگیا۔ طلبہ و طالبات کلاس روم سے نکل رہے تھے۔ مَیں ہمیشہ سب سے آخر میں ہال سے نکلتا تھا۔۔۔ابھی مَیں اُٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا
ہی تھا کہ ایک لڑکی میرے پاس آئی اور کہنے لگی۔۔۔
سر۔۔! میڈم نے آپ کو اپنے آفس میں بُلایا ہے۔
ٹھیک ہے۔۔۔مَیں مِل لیتا ہُوں۔ مَیں نے لڑکی کو جواب دِیا تو وہ جلدی سے اپنی سہیلیوں کی طرف چلی گئی۔ مَیں پریشان تھا اور خوفزدہ بھی۔۔۔پتہ نہیں میڈم کیا بات کرنا چاہتی ہیں۔ یہ سوچتے ہُوئے مَیں اُن کے آفس میں پہنچ گیا۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑی باہر اُڑتے پرندوں کو دیکھ رہی تھِیں۔ اُن کے لمبے سیاہ گھنے بال کمر سے نیچے گھٹنوں تک آرہے تھے۔ اُسے اِس طرح کھڑے دیکھ کر مجھے بالکل ایسے لگا جیسے کھڑکی سے میری رات کی دُنیا اُتر آئی ہے۔ مَیں
چند لمحے اُسی خواب میں کھوگیا۔۔۔پھِر اپنی ڈائری کو میز پر رکھا تو اُس آواز سے چونک کر انھوں نے مڑ کر مجھے دیکھا۔
پرندے آزاد فضاؤں میں اُڑتے ہُوئے کِتنے اچھے لگتے ہیں۔ کِتنا ظالم ہے وہ شخص جِس نے پنجرہ بنایا ہے۔
جی۔۔۔مَیں اور کچھ نہ کہہ سکا۔
آؤ بیٹھو۔۔۔خیریت ہے!اِتنے دِن کہاں رہے۔۔۔اُس نے کُرسی پر بیٹھتے ہُوئے کہا۔
خیریت ہی تھی میم۔۔۔مَیں نے آہستہ سے جواب دِیا۔
تُمہیں یاد ہے کہ اعجاز کو گئے آج پورے پانچ سال تِین مہینے اور سات دِن ہو چکے ہیں۔۔!
نہیں میم مجھے یاد نہیں۔۔۔کیوںکہ یہ واقعہ میرے کالج جوائن کرنے سے پہلے کا ہے۔ مَیں نے خشک لہجے میں جواب دِیا مگر نہ چاہتے ہُوئے بھی میری نظریں
میڈم کے ہاتھوں پر مرکوز ہوگئِیں۔مَیں اپنی ہِمت کو یکجا کرتا رہا تاکہ میڈم سے بات کر سکوں۔
دراصل آج اعجاز کا برتھ ڈے ہے۔۔۔ میڈم نے چہرے پر مسکراہٹ کا نقاب اوڑھ لِیا ور بولی کہ مَیں نے سوچا کہ تُم میرے دوست ہو۔۔۔ہم مِل کر اعجاز کا برتھ ڈے Celebrateکرتے ہیں۔ مَیں نے کیک اور چائے منگوائی ہے۔
مجھے میڈم پر ترس آرہا تھا کہ وہ کِتنی چاہت سے اب تک اُس کو یاد کر رہی ہیں۔۔۔اور وہ جھوٹا۔۔۔دھوکا باز۔۔۔اُس نے شاید میڈم کو بتایا بھی نہیں کہ اُسکے بیوی بچے ہیں۔۔۔میری پروفیسر اعجاز کے لیے ساری ہمدردیوں کے غبارے ہوا میں پھٹ گئے۔ اُس کے بار بار ذِکر سے مجھے کوفت ہو رہی تھی۔
میرے اندر حسد کی آگ بھڑک اُٹھی۔۔۔مَیں نے سوچا کہ میڈم کو اعجاز کی حقیقت بتا ہی دینی چاہیے۔خاموشی کا وقفہ طویل ہُوا تو مَیں نے ہِمت کر کے میڈم سے پوچھا،
میم ایک بات پوچھوں آپ ناراض تو نہیں ہوں گی۔۔؟
یہ تو بات سُن کر بتاؤں گی کہ ناراض ہونا ہے یا نہیں۔۔۔تُم کہو بات کیا ہے۔۔۔
میم۔۔! کیا کبھی پروفیسر اعجاز صاحب نے شادی کی بات۔۔۔فقرہ ابھی میرے مُنہ کے دروازے پر ہی تھا کہ نائب قاصد چائے اور کیک لے کر کمرے میں داخل ہوگیا۔۔۔مَیں خاموش ہو گیا۔اُس نے میز پر چائے اور کیک رکھ کر پوچھا میڈم کچھ اور۔۔۔
نہیں۔۔۔ رشید۔ تُم جاؤ۔۔۔برتن بعد میں لے جانا۔اُس کے جانے کے بعد انھوں نے خود ہی بات شروع کر دی۔
منصور! بات یہ ہے کہ ہم اچھے دوست تھے۔ ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے مگر شادی کی بات کی نوبت ہی نہ آئی کہ یہ حادثہ ہوگیا۔چلو اب اُداسی کی باتیں بند۔۔۔خوشی کا موقع ہے تُم کیک کاٹو ورنہ چائے ٹھنڈی ہوجائے گی۔۔۔ مَیں خاموشی سے کیک کاٹنے لگا اور انھوں نے چائے بنائی۔ پھِر مَیں نے کیک پیس میڈم کو کھِلایا۔۔۔اور چائے کا کپ لے کر کُرسی پر بیٹھ گیا۔ میرے اندر کا اضطراب سب کچھ کہنے پر مجبور کر رہا تھا۔ مَیں چائے کا گھونٹ لے کر پھِر بولنے لگا۔
میم جی! مَیں آپ کے لیے بہت پریشان ہُوں۔
ہاں مَیں۔۔۔جانتی ہُوں۔۔۔مَیں تمھاری کیفیت کو سمجھتی ہُوں۔ تمھاری ہمدردی کا شکریہ۔۔۔بات صِرف ہمدردی کی نہیں ہے۔
تو پھِر کیا بات ہے۔۔۔ انجان بنتے ہُوئے انھوں نے سوال میری طرف اُچھال دِیا۔
ہم اچھے دوست ہیں۔۔۔مجھے آپ کے ہاتھ بہت اچھے لگتے ہیں مگر چھُو نہیں سکتا۔۔۔شام ہوتے ہی میرے اندر ایک نئی دُنیا آباد ہو جاتی ہے۔ جِس
میں چاروں طرف صِرف آپ ہی آپ ہوتی ہیں۔۔مَیں نظریں جھکائے ایک ہی سانس میں اپنے دِل کی بات کو زبان پر لے آیا۔
منصور۔۔۔تُم اپنی حد سے تجاوز کر رہے ہو۔۔۔مَیں اگرتُم سے بات کر لیتی ہُوں تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تُم خود ہی خوابوں کی دُنیا آباد کر لو۔۔۔ تمھارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔۔میرا مشورہ ہے کہ تُم بہت جلد کِسی اچھے ماہر نفسیات سے مِلو۔۔۔اور ہاں پِھر مجھے ضرور بتانا کہ اُس نے کیا کہا ہے۔۔۔ اب تُم جاؤ۔ تمھاری کلاس کا وقت ہو رہا ہے۔۔۔غصے سے بپھری ہُوئی شیرنی اپنی کچھار سے باہر نکل آئی۔۔۔مَیں شرمندہ سا سر جھکائے کمرے سے باہر نکل آیا۔ تیز و تُند طوفانی ہواؤں نے میرے ذہن میں اُگے ہُوئے اُس کی یادوں کے درخت جڑ سے اُکھاڑ دیئے۔۔۔مَیں اندر سے ٹوٹ کر بکھر رہا ہُوں۔۔
مَیں اپنے کمرے میں آیا اور نیند کی گولی لے کر سو گیا۔۔۔نیند کے گہرے سمندر میں ڈوب ڈوب کر اُبھرتااور اُبھر اُبھر کر ڈوبتا رہا۔۔۔میری رات کی رنگین
دُنیا بھی تاریکی میں ڈوبی رہی ہے۔
نہ وہ لڑکی۔۔۔نہ گھر۔۔۔نہ بستی۔۔۔نہ خواب۔۔۔نہ میڈم۔۔۔مایوسی ہی مایوسی۔
دوسرے دِن جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ دس بج چکے ہیں۔ پرنسپل کی طرف سے دو پیغام آچکے تھے کہ اُن کو مِلیں۔۔۔مَیں خوفزدہ ہوگیا، کہِیں میڈم بُخاری نے رپورٹ تو نہیں کر دی کہ مَیں نے انھیں ہراساں کِیا ہے۔مجھے اپنی نوکری کی فکر ہونے لگی۔۔۔جلدی جلدی تیار ہو کر کالج پہنچا اور ڈرتے ڈرتے پرنسپل صاحب کے کمرے میں قدم رکھا تو میڈم بُخاری کو وہاں دیکھ کر یکدم ذہن میں زبردست دھماکہ ہُوا۔پیروں کے نیچے زمین لرز اُٹھی۔ہر چیز گھومتی ہُوئی نظر آئی اور مَیں گرتے گرتے سنبھلا۔
آیئے منصورصاحب! بیٹھیں۔۔۔آپ کی ایک رپورٹ آئی ہے۔۔۔یہ کہتے ہُوئے انھوں نے میڈم بُخاری کی طرف دیکھا۔۔۔میری پیشانی پر پسینے
کے قطرے نمودار ہُوئے، دِل زورسے دھڑکنے لگا بڑی مشکل سے زبان نے ساتھ دِیا اور مَیں شرمندگی کے احساس کے ساتھ کہنے لگا۔
نہیں سر۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ دراصل یہ غلط فہمی۔۔۔میڈم نے مسکراتے ہُوئے میری طرف دیکھا، کیا بات کر رہے ہو۔۔۔انھوں نے میری بات کاٹ دی۔۔۔لگتا ہے رات اچھی طرح سوئے نہیں۔
دراصل کمیٹی نے رپورٹ دی کہ اِس بار H.E.Cکی کانفرنس میں میڈم بُخاری کے ساتھ آپ بھی کالج کی نمائندگی کریں گے۔۔۔اگلے مہینے کانفرنس منعقد ہوگی، اب تیاری کریں۔ پروگرام آپ کو مِل جائے گا۔۔۔خوشی کی اِس خبر کے لیے میری سماعت تیارہی نہیں تھی۔مگر اچانک مسکراہٹ چہرے پر آگئی۔۔۔مَیں نے میڈم بُخاری کی طرف دیکھا، مجھے محسوس ہُوا کہ وہ میری کیفیت کو Enjoyکر رہی تھِیں۔۔۔اور پھِر مَیں باہر آنے کے لیے اُٹھا تو میڈم بُخاری بھی اُٹھ کھڑی ہُوئِیں۔ آفس سے نکلا، خُدا کا شکر ادا کِیا کہ میڈم نے میری شکایت نہیں کی بلکہ اگلے ماہ مجھے اُن کے ساتھ اِسلام آباد جانا ہوگا۔مَیںنے ابھی قدم اُتھایا ہی تھا کہ میڈم بھی آگئِیں۔
منصور! تُمہیں پتہ ہے کہ تُم نے ماہر نفسیات کو مِلنا ہے۔۔۔اور جلدی سے واپس آفس کی طرف مڑ گئِیں۔
جی میم۔۔!مَیں آپ کی بات کو ٹال تو نہیں سکتا۔۔۔اور یُوں اگلی شام کو ماہر نفسیات سے وقت لِیا اور پورا ایک گھنٹہ اُس کے ساتھ گزارنا پڑا۔
ماہر نفسیات میز کی دوسری طرف بیٹھا غو ر سے میری باتیں سُن رہا تھا۔
مَیں نے اُسے بتایا کہ مَیں اُردو زبان کا لیکچرار ہُوں مگر اپنے شوق کی وجہ سے مَیں نے نفسیات کی بھی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کِیا ہے اور اب اُس میں اِتنا ڈوب گیا ہُوں کہ بڑے بڑے نفسیاتی مسائل کے علاوہ روزمرہ کے عام سے کاموں میں بھی نفسیات کے زرد زرد سائے میری آنکھوں کے سامنے لہرانے لگتے ہیں۔شام کے وقت سرمئی پہاڑوں کے پیچھے ڈوبتے ہُوئے سورج کے ساتھ ہی میرے اندر کی تمام پرچھائیاں باہر نکل آتی ہیں اور میرے گرد ایک نئی دُنیا جنم لے لیتی ہے۔اِنسان کی طرح کائنات بھی ظاہر اور باطن میں بٹی ہُوئی ہے۔ اِنسان اور کائنات ایسی عمارات کی طرح ہیں جِن کا جِسم بھی ہے رُوح بھی۔۔۔رُوح کے باطن کا احاطۂ ادراک لامحدود ہے۔ رُوح کے اسرار سمجھنے کے لیے من کے اندر جھانکنے کے لیے تیسری آنکھ کو وسیلہ بنانا پڑتا ہے۔ اور مَیں سوچتا رہتا ہُوں کہ اُس تیسری آنکھ تک کیسے پہنچا جائے۔
مگر آپ یہ بتائیں کہ آپ کا اصل مسٔلہ کیا ہے۔۔؟ کونسی چیزیں یا باتیں یا سوچیں تُمہیں Hauntکرتی ہیں؟ آپ اِس کاغذ پر لکھتے جائیں۔۔۔ڈاکٹر نے ایک کاغذ میری طرف بڑھایا اور خود ایک موٹی سی کتاب کھول کر پڑھنے لگا۔ مجھے ڈاکٹر پر غصہ آیا مگر برداشت کر گیا اور پھِر ڈاکٹر کو بتانے لگا کہ وہ ہر وقت میرے ساتھ ساتھ رہتی ہے بلکہ میرے اندر میرے رُوح میں بسی ہُوئی ہے۔ مَیں تیسری آنکھ کے ذریعے اُس کی رُوح کے اندر جھانک کر دیکھنا چاہتا ہُوں، آخر وہ کیا چاہتی ہے۔
میرا مسٔلہ یہ نہیں ہے کہ وہ عُمر میں مجھ سے بڑی ہے بلکہ یہ ہے کہ مَیں آج تک اُس کی صورت کِسی کو دِکھا نہیں سکا حال آںکہ مجھے یقین ہے کہ وہ ہر وقت میرے اندر موجود ہوتی ہے۔اُس کا کوئی نام بھی نہیں ہے اور میری اُس سے ملاقات بھی رات کے پچھلے پہر خوابیدہ ماحول میں ہوتی ہے۔ جِس کا کوئی ثبوت موجود نہیںہے۔ کیوںکہ دِن کی روشنی میں مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنی جگہ پر موجود نہیں ہے۔ اور مَیں اپنے آپ کو خالی خالی محسوس کرتا ہُوں۔ تب ایک حیرت ناک خوف کا عفریت مجھے خوفزدہ کرتا رہتا ہے۔
اُس کے ناموجود ہونے کا خوف۔۔۔میرے وجود میں آبستا ہے۔ اُس بے شکل خوف کا کوئی نام بھی نہیں ہے۔بس وہ ایک خوف ہے جو دِل کی شریانوں میں بہتا رہتا ہے اور اب تو اُس نے دِل سے دماغ کی طرف یلغار شروع کر دی ہے۔ اُسکے ساتھ ہی میرے وجود کی بستی میں کئی چھوٹے چھوٹے خوفوں نے بھی بغاوت کا علم تھام لِیا ہے۔۔۔چند مہینوں میں ہی اُن باغیوں نے میرے چہرے سے تازگی کی ہریالی چھین لی ہے۔ اور میرے چہرے کا رنگ زردی مائل ہوگیا ہے۔ نیند میں جِسم کی عمارت لرزنے لگتی ہے۔ ہاتھ، پاؤں،سر، دِل، دماغ سب اِس بغاوت کی زد میں آگئے ہیں۔ میرا سکون برباد ہوچکا ہے۔ مَیں یہاں سے کیسے نکلوں۔ اپنے اپٹوپیا سے باہر کیسے آؤں۔۔۔مَیں رُک کر ڈاکٹر کی طرف دیکھنے لگا۔
ایک بات یاد رکھیں۔۔۔ڈاکٹر نے میز پر پڑا ہُوا کاغذ اپنے ہاتھوں میں لتے ہُوئے کہا جب تک آپ اپنے ذہن کا دروازہ نہیں کھولیں گے میرا عِلم باہر ہی کھڑا رہے گا۔ لیکن ایک بات کا مکمل یقین رکھیں کہ آپ ایک پڑھے لکھے ذہین شخص ہیں۔ لیکن سیکھتا وہ ہے جو سیکھنے کی خواہش رکھتا ہو۔ تمھارے اندر بسنے والی دُنیا بہت خوب صورت ہے۔ آپ اُس کو مکمل طور پر دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ مگر تمھارا ذہن صاف نہیں۔۔۔وہاں شک و شبہ کی بڑی بڑی گھنی گھاس اُگ چکی ہے۔۔۔آپ خوفزدہ رہتے ہو کیوںکہ سامنے کوئی واضح شکل نہیں۔۔۔کوئی نام نہیں۔۔۔ایسے حالات میں آپ نے کہِیں نہ کِہیںتو پڑھا ہوگا کہ ہم اِس کیفیت کو Disorder OBESSESSION COMPULSIVEکا نام دے سکتے ہیں۔
ہاں یہ تو ٹھیک ہے مگر بیمار نہیں ہُوں۔۔۔اِس کے باوجود جواپنے اندر دیکھ لیتا ہُوں وہ آپ نہیں دیکھ سکتے۔ جو مَیں سُن سکتا ہُوں وہ آپ نہیں سُن سکتے۔ مَیں نے ڈاکٹر کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ اچھا یہ بتاؤ کیا آپ مجھے اُس بستی میں لے جا سکتے ہو جہاں وہ لڑکی تُمہیں پلنگ پر لیٹی مِلتی ہے۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا۔ نہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔ وہ ناراض ہو جائے گی۔۔۔اور مَیں اُسکی ناراضی برداشت نہیں کر سکتا۔ہو سکتا ہے کہ بستی والے ناراض ہو کر ہمیں واپس ہی نہ آنے دیں۔
مَیں سمجھ گیا کہ آپ کا مسٔلہ کیا ہے۔۔۔ماہر نفسیات نے موٹی سی کتاب بند کی۔ایک لمحہ کو رُکا پھِر کہنے لگا اِس زمین پر دُکھ بہت ہیں اور اُن دُکھوں میں ہی زِندگی کے اسرار پوشیدہ ہیں۔ دراصل تمھارے اندر ایک تشنگی کا دریا بہہ رہا ہے جِس نے تمھارے اندر کی ساری نمی کو چوس کر اِسے ایک صحرا میں بدل دِیا ہے۔جہاں ہر وقت ریت کے اُڑتے بگولے اپنی جگہ بدلتے اور ہر وقت ایک بہت بڑے خلا کو جنم دیتے رہتے ہیں۔ اور اگر یہ خلا بھر نہ پایا تو مجھے ڈر ہے کہ تُم ہمیشہ ڈپریشن اور اینگرائٹی کا شکا ر رہو گے۔اور سب سے کٹ کر تنہا رہ جاؤ گے۔ تُمہیں ایک مستقل ساتھی کی ضرورت ہے، ایسے ساتھی کی۔۔۔جِس کی رُوح کی کیمسٹری تمھاری رُوح کی کیمسٹری سے مِلتی ہو۔۔۔ اب ذرا غور سے سُنو ڈاکٹر نے مجھے دوبارہ متوجہ کِیا، اگر یہ دونوں رُوحیں مِل گئِیں تو تمھارے اندر کا خلا بھر جائے گا اور تُم مکمل ہو جاؤ گے۔ پھِر بڑے سکون سے ایک مکمل زِندگی گزارو گے۔۔۔اُس کے نام کے ساتھ۔۔۔ اُسکی یاد میں۔۔۔لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ تمھارے مقدر میں ہے بھی کہ نہیں۔۔۔
ڈاکٹر صاحب۔۔! آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے۔۔۔اُس کی کوئی نشانی۔۔۔مَیں اُسے کیسے قائل کروں گا۔
جب تُم اُسے مِلو گے تو تمھارے دِل میں آتشِ عِشق بھڑک اُٹھے گی۔ تمھارا دِل جلنے لگے گا۔۔۔اور یہ آگ اُس کے دِل میں بھی لگ جائے گی۔ تب تُم دونوں اُس آگ میں جل جاؤ گے۔۔۔اُس کے جِسم و جاں سے پھوٹنے والے چشمے تمھارے اندر جذب ہو کر تمھارا خلا بھر دیں گے۔۔۔اور پھِر یُوں ہوسکتا کہ جب تک تُم اُسے چھُو نہ لو گے تمھاری آنکھ نہ کھلے گی۔جب تک تُم اُسے دیکھ نہ لوگے تمھارا سورج طلوع نہ ہوگا۔
اُس سے جُدائی کا خوف تمھاری آ نکھوں میں آنسو بھر دے گا۔۔۔یہ آ نسو کہاں سے آئیں گے۔ تُمہیں خود بھی معلوم نہیں ہوگا۔۔۔تمھارے قدم اُس زمین پر ہونگے جہاں ہر کام کے ثبوت موجود ہوں گے۔یہ کہتے کہتے ڈاکٹر خلاؤں میں گھورنے لگا۔
کمرے میں زرد دھوئیں کی لہریں تیرنے لگِیں۔ مَیں نے دیکھا کہ ڈاکٹر کی کرسی کے پیچھے دیوار پر آویزاں قد آور آئینے میں میڈم بُخاری کا سایہ اُبھرنے لگا ہے۔۔۔مَیں نے اُٹھ کر اپنا ہاتھ بڑھایا تو میڈم بُخاری نے مسکراتے ہُوئے میراہاتھ تھام لِیا اور ہم دونوں کے سائے آئینے کی آنکھوں میں تحلیل ہوگئے۔۔۔مَیں نے آنکھوں کو مسل کر دوبارہ دیکھا تو میڈم بُخاری ڈاکٹر کی کرسی پر بیٹھی ہُوئی۔۔۔نظر آئِیں۔۔۔ مگرکمرے میںمیرے سِوا کوئی بھی نہیں ہے۔۔۔دروازہ بند پڑا ہے اور باہر گلی میں سناٹا زرد چاندنی کی چادر اوڑھے گہری نیند سو رہا ہے۔

Related posts

Leave a Comment