حمزہ حسن شیخ ۔۔۔ رحیمو کی ریڑھی

رحیمو کی ریڑھی

پارک میں بہت رش تھا اور ہر سو لوگوں کا ہجوم تھا۔ موسیقی اونچی آواز میں بج رہی تھی اور کتوں کی بھونک اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ ماحول خوشگوار تھا اور ہر چہرہ خوشی سے بھرپور۔ انسانوں اور کتوں کا جمگھٹا آپس میں گھل مل چکا تھا۔ موٹے اور طاقتور مالکان اپنے کتے سنبھالنے میں مگن تھے۔ انھوں نے اپنے کتوں کی ڈوریں سنبھال رکھی تھیں لیکن کتے اتنے بڑے تھے کہ وہ ان کو سنبھالنے میں ناکام نظر آتے تھے۔
پارک کے ایک کونے میں بہت اونچا اور شاندار خیمہ نصب کیا گیا تھا اور سٹیل کی قیمتی اور نرم کشن شدہ کرسیاں لگائی گئی تھیں جب کہ خیمے کو چہار سو خوب صورت اور رنگ برنگی چادروں سے سجایا گیا تھا۔ خیمے کو ایک جانب سے کھلا چھوڑا گیا تھا تاکہ عوام اس شو کا لطف اٹھا سکیں۔ یہ کتوں کا ہفتہ وار شو تھا جس میں کئی اسٹائلش مالکان کے اسٹائلش کتے حصہ لے رہے تھے۔ ہر ہفتے پارک کے اس کونے میں شدید رش ہوتا اور کتوں کی بھونک ماحول کا حصہ بنتی۔ پارک کی پارکینگ مرسی ڈیز، کرولا اور دوسری چمکتی دمکتی گاڑیوں سے بھری تھی جس کو دیکھکر انسانی آنکھیں چندھیا جاتی تھیں۔ کچھ گاڑیوں میں بڑے بڑے کیبن بنے ہوئے تھے جن میں قیمتی اور اسٹائلش کتے بند تھے اور وہ ان پنجروں سے باہر آنے کے لیے بے چین دکھائی دیتے تھے۔ پارک کے اس حصے کو خصوصی طور پر جمداروں نے خوب جھاڑو لگا کر صاف کیا تھا کیوںکہ شہر کے چند ہی مہذب اور معزز لوگ یہاں جمع ہو رہے تھے۔ خیمے کی سجاوٹ مثالی تھی اور پارک کا مین گیٹ بھی غباروں سے سجایا گیا تھا، تقریبا ۲۰ غباروں کی ایک لڑی ہوا میں لہرا رہی تھی جو لوگوں کے لیے جاذب نظر تھی اور لوگ جوق در جوق پارک کی جانب آرہے تھے۔ لوگوں کا ہجوم دیکھکر، ریڑھی اور چھابڑی والوں نے بھی پارک کا رخ کیا تاکہ کچھ پیسے کما سکیں۔ اتنے بڑے بڑے کتے دیکھکر غریب اور کمزور ریڑھی والوں کو اپنے دل بڑے کرنے پڑے جب کہ پارک میں واک کے لیے جانے والے افراد بھی ان تندرست وتوانا کتوں سے خوفزادہ دکھائی دیتے تھے۔ کتوں کے مالک ان کو سبنھالنے کی حد درجہ کوشش میں مگن تھے۔ کئی بار طاقتور کتے ان کو گھسیٹ کر لے جاتے۔ رہگیر یہ رنگین زندگی دیکھکر حیران رہ گئے جو غموں سے آزاد تھی اور عیش و عشرت ہی اس کو گزارنے کا واحد طریقہ تھا۔ مالکان کے چہرے خوشی سے روشن تھے اور وہ اپنے کتوں کو پیار کر رہے تھے جو ان کے لیے بیٹوں بھائیوں سے کم نہ تھے بلکہ ان سے بھی بڑھ کر تھے۔ ان کی بڑی گاڑیوں کی پچھلی سیٹیں ان کے کتوں کے لیے مخصوص تھیں جہاں پر وہ سوتے تھے یا پھر سفر کے دورن کھیلتے تھے۔ ان مالکان میں سے کچھ خواتین بھی تھیں جو شہر کی امیر ترین ہستیوں میں شمار ہوتیں تھیں چوںکہ وہ اپنے خاوندوں میں دلچسپی پیدا کرنے میں ناکام ہو گئیں تھیں۔ اس لیے انھوں نے یہ بہتر سمجھا کہ کسی کتے سے ہی پیار کر لیں۔ وہ اپنے کتوں کو مختلف القاب سے پکار رہی تھیں۔ جیسے ڈرالنگ، سویٹ ہارٹ اور پریٹی۔۔۔ یہ وہ الفاظ تھے جو وہ کسی انسان سے کہنے سے قاصر تھیں۔ کتے ان کے پائوں چاٹ رہے تھے اور جوابا وہ اپنے کتوں کو چوم رہی تھیں۔ شہر کی ان امراء خواتین کا برتائو کتوں کے ساتھ بہت ہمدردانہ اور مخلصانہ تھاکیوںکہ ان کے خیال میں ان کی محبت کے صحیح حقدارصرف وہی تھے اور یہ محبت ناکام تقسیم تھی اور کوئی بھی بیگم صاحبہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا کتا کسی اور کٹیا کے ساتھ واسطہ رکھے۔
رفتہ رفتہ یہ ریڑھی والوں کے لیے خصوصی دن بن گیا اور وہ ہر اتوار کو اچھی فروخت کی امید سے پارک کا رخ کرتے۔ چوںکہ یہ شو باقاعدگی سے منعقد ہوتا تھا، اس لیے ریڑھی والوں نے بھی وہاں ہر ہفتے جانے کا معمول بنا لیا۔ ان میں سے ایک رحمیو بھی تھا جو میٹھی اور ٹھنڈی ٹھار قلفیاں بیچتا تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھتا اور سڑکوں اور گلیوں میں گھومتا پھرتا اور قلفیاں بیچ کر کچھ روپے کما لیتا۔ یہ اس کا پیشہ تھا اور وہ جوانی سے یہ کام کر رہا تھا۔ وہ قلفیاں بیچنے سے تواتنا نہیں کماتا تھا لیکن یہ اس کا اور اس کے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی تھا۔ زندگی آہستہ آہستہ رواں دواں تھی اور وہ لالچ اور تما سے آزاد تھا۔ اس جدید دور میں جہاں کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں آئس کریم اور قلفیاں بناتی تھیں اور ان کی رنگ برنگی اور دل کشا پیکینگ لوگوں کو اپنی جانب کھینچتی تھیں تاہم ابھی بھی تازہ دودھ اور ملائی سے بنی قلفیاں بچوں میں مقبول تھیںاور وہ اتنا کما رہا تھا کہ اپنا پیٹ بھر سکے۔ رحمیو زندگی سے خوش تھا اور وہ خدا کی نعمتوں پر ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتا۔ اتوار کو، وہ صبح سویرے اٹھتا اور قلفیاں بنانا شروع کر دیتا۔ وہ مزید مواد بھی ساتھ رکھ لیتا تاکہ گاہگوں کی تعداد بڑھنے پر اور بھی بنا سکے۔ پورے ہفتے میں صرف ایک ہی دن ایسا تھا جب وہ اپنی روزمرہ کی آمدنی سے زیادہ کماتا تھا۔ اب اسے محسوس ہونے لگا کہ اس کے دن خوشحال ہونے لگے ہیں اور پیٹ بھر کھانے کے بعد بھی رقم بچنے لگی تو اس نے اپنی مشکل اور بکھری زندگی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ پہلی بار اسے خیال آیا کہ وہ اپنے گھر کی مرمت کرے جو اس کے باپ نے مدتوں پہلے بنایا تھا۔
پرانی دیواریںسیم زدہ ہو کر گر رہی تھیں جب کہ پرانی چھتیں ہر بارش کے بعد ٹپکتی تھیں۔زندگی اس کے لیے آسان نہ تھی۔ زندگی میں پہلی بار، بھوک اور پیاس سے چھٹکارے کے بعد اس کو اپنے خاندان اور گھر کی بہتری کے لیے سوچنے کا موقعہ ملا تھا۔ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اب قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہو گئی ہے اور اس کی زندگی میں بھی تبدیلی آنے والی ہے۔ مرمت کے خیال نے اس کو کچھ لمحوں کے لیے خوش کر دیا اور اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اتوار کا دن اس کے لیے بہت اہم ہوتا اور یہ اکیلا دن ہی اس کی خالی جیبیں بھرنے کے لیے کافی ہوتا۔ وہ اپنے چھوٹے بچے کو بھی ساتھ لے جاتا تاکہ وہ گھر کے ماحول سے کچھ دیر کے لیے چھٹکارا پا سکے اور زندگی کی رنگینیوں کا لطف اٹھا سکے۔ ننھا عرفان اپنے اردگرد خوشیوں کی بہار دیکھکر نہال تھا لیکن اس کے معصوم چہرے پر خوف کے اثرات بھی نمایاں تھے۔ بھونکتے کتوں نے اس کو خوفزادہ کر دیاتھا اور خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں رواں تھی۔ وہ اپنے سے بھی بڑے بڑے کتے پہلی بار دیکھ رہا تھا تاہم پھر بھی وہ اپنے اردگرد ہنس مکھ چہرے دیکھکر خوش تھا۔ کئی اشیاء اس کے لیے نئی تھیں۔ لہراتے غباروں کی پٹی اس کے لیے جاذب نظر تھی اور وہ شام کی ہوا سے لہراتے غباروں کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ ان غباروں کو پکڑے اور کھیلے۔ اس نے اپنی خواہش کا اظہار اپنے باپ سے بھی کیا لیکن باپ نے دبی دبی ڈانٹ سے منع کر دیا کہ یہ غبارے امیر صاحب کے ہیں اور سجاوٹ کے لیے ہیں، کھیلنے کے لیے نہیں۔‘‘ اس کی ننھی حسرت اس کے اندر ہی دم توڑ گئی۔ غبارے ہوا میں لہراتے رہے اور زمین پر کھڑا ننھا عرفان ان کو دیکھکر نہال ہوتا رہا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اپنا وزن کھو دے اور ان غباروں کی طرح ہوا میں اڑ جائے۔ اس کی نظریں غباروں پر جمعیں تھیں اور خواہشات اس کے وجود میں انگڑائیاں لے رہیں تھیں۔ اسی اثناء ایک غبارہ لڑی سے ٹوٹا اور آسمان کی جانب اڑ گیا۔ اس کا دل دکھا جیسے اس نے کوئی بڑی جاگیر کھو دی ہو۔ وہ اس نقصان پر غم زدہ رہا اور ٹوٹا غبارہ ہوا میں اڑتا اڑتا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس کی نظریں غبارے پر جمعی رہیں، یہاں تک کہ وہ ایک نقطہ بن گیا اور ایسے محسوس ہوتا جیسے اس نے آسمان چھو لیا ہو۔ وہ اسی خیا ل میں گم تھا کہ اس کا تخیل کتے کے بھونکنے کی آواز سے ٹوٹا۔ اس نے گھبرا کر اردگرد دیکھا تو ایک چھوٹا سا لڑکا اپنے سے کئی گنا بڑے کتے کا رسہ تھامے اس کو قابو کر نے کی کوشش کر رہا تھا۔ کتے سے خوفزادہ ہو کر اس نے باپ کی جانب قدم بڑھائے۔ حساس کتے نے بھی اس کے خوف کو جانچ لیا اور عرفان کی جانب لپکا۔ عرفان نے خوفزادہ ہو کر باپ کی جانب دوڑ لگا دی۔ چھوٹا لڑکا کتے کو نہ سنبھا ل سکا اور رسہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ آزاد ہونے کے بعد، کتا عرفان کی جانب لپکا۔ اسی دوران وہ اپنے باپ کے قریب پہنچ چکا تھا جو کچھ فاصلے پر قلفیاں بیچ رہا تھا۔ وہ زور سے چلایا، بیٹے کی چیخ اور کتے کی بھونک سن کر وہ متوجہ ہوا تو منظر اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ کتا اس کے بیٹے کو دبوچنے والا تھا اور ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اسے لمحوں میں نگل جائے گا۔ اس کے بیٹے اور کتے کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تھا۔ باپ کی شفقت پدری نے جوش مارا اور لاشعوری طور پر اس کی گرفت اپنی ریڑھی پر مضبوط ہو گئی۔ کتا ننھے عرفان پر چھلانگ لگانے والا ہی تھا کہ رحیمو کے ہاتھوں میں جنبش آئی اور اس نے ریڑھی اٹھا کر زورسے کتے کی جانب اچھالی۔ عرفان اپنے باپ کے پاس پہنچ گیا لیکن ریڑھی اور کتے کی ملاقات ہوا ہی میں ہوئی جو سیدھا اس کے سر پر لگی اور وہ بے جان ہو کر گر گیا۔ رحیمو نے خوف زدہ بچے کو گلے لگایا جب کہ لوگ اس منظر کے اردگرد اکٹھے ہو گئے۔ بیگم صاحبہ چیخی، چلائی، روئی اور بار بار اپنے کتے کو پکارنے لگی۔ اس کی چیخ پکار نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو جمع کر لیا۔ اس کی زندگی کا آخری سہارا اسکی آنکھوں کے سامنے مردہ پڑا تھا جو ناقابل برداشت اور خوفناک منظر تھا اور بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ اس نے پولیس کو بلایا اور کچھ دیرمیں پولیس وہاں پہنچ گئی۔ کتے کے قتل کی ایف آئی آر رحمیو کے خلاف درج کر دی گئی اور پولیس نے اس کو گرفتار کر لیا۔ غریب رحیمو ابھی تک ساری صورتِ حال سمجھنے سے قاصر تھا۔ بہت سے مہذب، مودب اور پڑھے لکھے لوگ معاشرے میں جانوروں کے حقوق کے بارے میں بات کرنے کے لیے وہاں جمع ہو گئے۔ رحیمو نے ایک ایسا گناہ کیا تھا جو کہ ایک مہذب معاشرے کے خلاف تھا۔ جانوروں کے بھی انسانوں کے برابر حقوق تھے اور یہ واقعہ سارے حقوق اور قوانین کے خلاف تھا۔ کیس کو معزز عدالت بھیج دیا گیا اور کئی دن اس پر بحث ہوتی رہی۔ گھر کی مرمت کا خواب ادھورا رہ گیا اور ساری رقم رحیمو کے کیس کے اخراجات پر اٹھ گئی۔ اسے قید کر دیا گیا اور اس کی ریڑھی کو ضبط کر دیا گیا۔ آخرکار معزز عدلیہ نے اپنا فیصلہ سنا ہی دیا۔ رحیمو کو تین سال قید کی سزا سنائی گئی اور معزز کتے کی قیمت ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید دو سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن وہ کتے کی قیمت ادا کرنے سے قاصر تھا کیوںکہ بیگم صا حبہ کا کتا ۲۰ لاکھ کا تھا جب کہ اس کی ریڑھی کی قیمت صرف پانچ ہزار روپے کی تھی۔

Related posts

Leave a Comment