کلاسیکیت: تعریف، دائرۂ کار اور عصرِ نو کے تقاضے ۔۔۔۔۔ نازیہ امام (ریسرچ اسکالر یونی ورسٹی آف دہلی)

زندگی اور کائنات کے تقریباََ تمام ہی شعبوں میں کلاسیکیت ، جدّت اور اس قبیل کی دوسری اصطلاحیں رائج ہیں۔ انھیں بالعموم مخالف رویّے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ کلاسیکیت اقدارِ قدیم میں یقین کرنے والوں کے لیے اگر سکّۂ رائج الوقت ہے تو جدّت اپنے عہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے قدم بڑھانے کا نام ہے۔ کلاسیکیت سے قریب کی ایک اصطلاح روایت بھی ہے جسے کلاسیکیت کا بدل بھی کہہ سکتے ہیں یا کم ازکم کلاسیکیت تک پہنچنے کا راستہ تو سمجھا ہی جاسکتا ہے۔ممکن ہے…

Read More

احمد حسین مجاہد ۔۔۔ اردو ماہیا

اک خوف تھا گاؤں میں باندھ لیے گھنگھرو پھر میں نے پاؤں میں

Read More

ساحر لدھیانوی ۔۔۔ اردو ماہیا

دل لے کے دغا دیں گے یار ہیں مطلب کے یہ دیں گے تو کیا دیں گے

Read More

ہمت رائے شرما ۔۔۔۔ اردو ماہیے

سرمست فضائیں ہیں پیتم پریم بھری پھاگن کی ہوائیں ہیں ۔۔۔ کچھ کھو کر پائیں ہم دور کہیں جا کر اک دنیا بسائیں ہم ۔۔۔ اشکوں میں روانی ہے آنسو پی پی کر مدہوش جوانی ہے ۔۔۔۔۔ بھیگی ہوئی راتوں میں ہم تم کھو جائیں پھر پریم کی باتوں میں ۔۔۔ کیا اشک ہمارے ہیں آنسو مت سمجھو ٹوٹے ہوئے تارے ہیں ۔۔۔۔سہمی ہوئی آہوں نے سب کچھ کہہ ڈالا خاموش نگاہوں نے ۔۔۔۔۔ دو نین چھلکتے ہیں ساجن آ جاؤ ارمان مچلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ طرزِ بیاں سمجھو کیف…

Read More

اعجاز عبید ۔۔۔ وہ جسے سن سکے وہ صدا مانگ لوں

وہ جسے سن سکے وہ صدا مانگ لوں جاگنے کی ہے شب کچھ دعا مانگ لوں اس مرض کی تو شاید دوا ہی نہیں دے رہا ہے وہ، دل کی شفا مانگ لوں عفو ہوتے ہوں آزار سے گر گناہ میں بھی رسوائی کی کچھ جزا مانگ لوں شاید اس بار اس سے ملاقات ہو بارے اب سچے  دل سے دعا مانگ لوں یہ خزانہ لٹانے کو آیا ہوں میں اس کو ڈر ہے کہ اب جانے کیا مانگ لوں اب کوئی تیر تر کش میں باقی نہیں اپنے رب…

Read More

ایم مبین ۔۔۔ ٹوٹی چھت کا مکان

وہ گھر میں اکیلا اور بیزار بیٹھا تھا۔ کبھی کبھی تنہا رہنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے ۔ اکیلے بیٹھے بلاوجہ گھر کی ایک ایک چیز کو گھورتے رہنا۔ سوچنے کے لیے کوئی خیال یا موضوع بھی تو نہیں ہے کہ اسی کے بارے میں غور کیا جائے ۔ عجیب و غریب خیالات و موضوعات ذہن میں آتے ہیں ۔ جن پر غور کر کے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا ہے ۔ اس نے اپنا سر جھٹک کر سر اُٹھانے والے ان لایعنی خیالوں کو ذہن سے نکالا اور…

Read More

مرزا اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ غزل

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا اِس تکلف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب آستیں میں دشنہ پنہاں ، ہاتھ میں نشتر کھلا گو نہ سمجھوں اس کی باتیں ، گونہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال خلد کا اک در ہے میری گور کے…

Read More