قمر جلالوی ۔۔۔ بھلا اپنے نالوں کی مجھ کو خبر کیا شبِ غم ہوئی تھی کہاں تک رسائی

بھلا اپنے نالوں کی مجھ کو خبر کیا شبِ غم ہوئی تھی کہاں تک رسائی مگر یہ عدو کی زبانی سنا ہے بڑی مشکلوں سے تمہیں نیند آئی شبِ وعدہ اول تو آتے نہیں تھے جو آئے بھی تو رات ایسی گنوائی کبھی رات کو تم نے گیسو سنوارے کبھی رات کو تم نے مہندی لگائی گلہ بے وفائی کا کس سے کریں ہم ہمارا گلہ کوئی سنتا نہیں ہے خدا تم کو رکھے جوانی کے دن ہیں تمھارا زمانہ تمھاری خدائی ہر اک نے دیے میرے اشکوں پہ طعنے…

Read More

مظفر حنفی ۔۔۔ اس روشنیِ طبع نے دھوکا دیا ہمیں

اس روشنیِ طبع نے دھوکا دیا ہمیں اپنے لہو کی آنچ نے جھلسا دیا ہمیں کیوں اتنے چھوٹے خود کو نظر آ رہے ہیں ہم یارب یہ کس مقام پہ پہنچا دیا ہمیں آئے تھے خالی ہاتھوں کو پھیلائے ہم یہاں دنیا نے خالی ہاتھ ہی لوٹا دیا ہمیں ٹھنڈی ہوا نے توڑ دیا تھا درخت سے پھر گرد باد آئے سہارا دیا ہمیں زخمی ہوئے تھے جنگ میں دشمن کے وار سے احباب نے تو زندہ ہی دفنا دیا ہمیں کاغذ کی ناؤ پر تھے ہمیں ڈوبنا ہی تھا…

Read More

مظفر حنفی ۔۔۔ بہانہ وفا کا نکالا گیا

بہانہ وفا کا نکالا گیا بہت خون میرا نکالا گیا شرارے اُچھلتے رہے سنگ سے چٹانوں سے دریا نکالا گیا مرا زخم بڑھ جائے گا اور کچھ اگر اب یہ نیزا نکالا گیا بغاوت نہیں دب سکے گی حضور جو کانٹے سے کانٹا نکالا گیا تپکتی تھی دنیا مرے پاؤں میں بمشکل یہ چھالا نکالا گیا محبت سے وہ باز آئے نہیں تو بستی سے کنبہ نکالا گیا

Read More

مظفر حنفی ۔۔۔ خداوندا، یہ پابندی ہٹا کر خوش خرامی دے

خداوندا، یہ پابندی ہٹا کر خوش خرامی دے کہ دریا سر کے بل جائے، سمندر کو سلامی دے نہ ایسے سست ہوں بادل کہ فصلیں زرد ہو جائیں نہ موجوں کو سنامی جیسی بے حد تیز گامی دے میں شاعر ہوں، تمنّا ہے مجھے مقبول ہونے کی مگر مقبولیت سے پہلے مجھ کو نیک نامی دے مری حق گوئی خامی ہے خرد مندوں کی نظروں میں یہ بے حد قیمتی خامی ہے مولا اور خامی دے اگر درکار ہے تاثیر تجھ کو اپنے شعروں میں انھیں رنگت مقامی دے انھیں…

Read More

مظفر حنفی ۔۔۔ مر جائے کوئی ان کو غم نئیں ہونا

مر جائے کوئی ان کو غم نئیں ہونا اُن دو قاتل آنکھوں میں نم نئیں ہونا پٹتا ہے تو لاشوں سے پٹ جانے دو دیکھو اس کوچے میں ماتم نئیں ہونا کالا بادل گھور نراشا کا ہوں میں پیارے تم بھی بجلی سے کم نئیں ہونا جنگل کا قانون چلے گا سنتے ہیں بستی میں اب آدم وادم نئیں ہونا ہم بھی استقبال کو جانے والے تھے وہ کہتا ہے کالا پرچم نئیں ہونا قطرہ ہوں تو شبنم جیسے جی لوں گا لوگو مجھ کو دریا میں ضم نئیں ہونا…

Read More

اعجاز عبید ۔۔۔ وہ جسے سن سکے وہ صدا مانگ لوں

وہ جسے سن سکے وہ صدا مانگ لوں جاگنے کی ہے شب کچھ دعا مانگ لوں اس مرض کی تو شاید دوا ہی نہیں دے رہا ہے وہ، دل کی شفا مانگ لوں عفو ہوتے ہوں آزار سے گر گناہ میں بھی رسوائی کی کچھ جزا مانگ لوں شاید اس بار اس سے ملاقات ہو بارے اب سچے  دل سے دعا مانگ لوں یہ خزانہ لٹانے کو آیا ہوں میں اس کو ڈر ہے کہ اب جانے کیا مانگ لوں اب کوئی تیر تر کش میں باقی نہیں اپنے رب…

Read More