مظفر حنفی ۔۔۔ بہانہ وفا کا نکالا گیا

بہانہ وفا کا نکالا گیا

بہت خون میرا نکالا گیا

شرارے اُچھلتے رہے سنگ سے

چٹانوں سے دریا نکالا گیا

مرا زخم بڑھ جائے گا اور کچھ

اگر اب یہ نیزا نکالا گیا

بغاوت نہیں دب سکے گی حضور

جو کانٹے سے کانٹا نکالا گیا

تپکتی تھی دنیا مرے پاؤں میں

بمشکل یہ چھالا نکالا گیا

محبت سے وہ باز آئے نہیں

تو بستی سے کنبہ نکالا گیا

Related posts

Leave a Comment