کلاسیکیت: تعریف، دائرۂ کار اور عصرِ نو کے تقاضے ۔۔۔۔۔ نازیہ امام (ریسرچ اسکالر یونی ورسٹی آف دہلی)

زندگی اور کائنات کے تقریباََ تمام ہی شعبوں میں کلاسیکیت ، جدّت اور اس قبیل کی دوسری اصطلاحیں رائج ہیں۔ انھیں بالعموم مخالف رویّے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ کلاسیکیت اقدارِ قدیم میں یقین کرنے والوں کے لیے اگر سکّۂ رائج الوقت ہے تو جدّت اپنے عہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے قدم بڑھانے کا نام ہے۔ کلاسیکیت سے قریب کی ایک اصطلاح روایت بھی ہے جسے کلاسیکیت کا بدل بھی کہہ سکتے ہیں یا کم ازکم کلاسیکیت تک پہنچنے کا راستہ تو سمجھا ہی جاسکتا ہے۔ممکن ہے عجلت میں کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ کلا سیکیت یا روایت کا وجود اسی وقت تک ہے جب تک اس شعبے میں جدّت کی کارفرمائی نہیں ہے۔ لیکن حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ کلاسیکیت اور روایت کے ساتھ ساتھ جدّت کی کیفیات اکثروبیشتر ایک ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ یہ مشکل ہے کہ کوئی واضح حد بندی کر دی جائے اور یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ رویّے ایک ماحول میں قائم رہنے والے نہیں ہیں۔ زندگی کی رنگا رنگی ہی یہ ہے کہ نیا اور پرانا اور بدلتا ہوا رنگ متوازی لکیروں کی طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں، اس لیے ہمیں یہ قبول کرنا چاہیے کہ اگر یہ رویّے مخالف بھی ہیں تو حیات وکائنات میں ایک ساتھ اپناوجود قائم رکھتے ہیں اور ان سے کائنات کی بوقلمونی میں اضافہ ہوتا ہے۔

کلاسیکیت:

فرانسیسی زبان میں Classiquسے درسی جماعتوں کا تصوّر کام میں لایا جاتا ہے۔ لاطینی زبان میں Classicus سے اعلا طبقہ اور بلند مرتبے پر فائز افراد یا گروہ سے لیا جاتا ہے۔ لاطینی میں Classicکے معنی ہجوم کے ہیں۔ Classicsسے جنگی گروہ کا وہ حصّہ مراد لیا جاتا ہے جو بہترین شہ سواروں سے لیس ہوتا تھا۔

ہندستان میں بالعموم ، اردو زبان میں بالخصوص گفتگو کرتے ہوئے ہم کلاسیکیت کو ایک ساتھ قدیم اور اعلا کے معنوں میں قابلِ غور سمجھتے ہیں۔ جب ہم کسی ادبی نمونے کو کلاسیکی قرار دیتے ہیں تو اس کا یہ بھی مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنی مثال آپ ہے اور دوسرے نمونوں سے برتر اور اعلا و ارفع ہے۔ یہ بھی بات مسلّمہ ہے کہ وہ نمونہ بالعموم قابلِ اتباع ہوگا۔ فرانسیسی نقّاد سانت بیو(۱۸۶۹۔۱۸۰۴) نے اپنے مشہور مضمون ’’کلاسیک کیا ہے‘‘؟ میں یہ کہا ہے:

’’ عام طور پر ’’کلاسیک‘‘ کا لفظ اس قدیم مصنّف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی حد درجہ تعریف وتوصیف ہوچکی ہو، جس کی جامعیت اور انفرادیت مسلّم ہو اور جس کی تعریف سے ہر کس وناکس واقف ہو۔ کلاسیک ایک ایسے قدیم مصنّف کو کہا جاتا ہے کہ جو اپنے مخصوص اسلوب میں اپنا ثانی نہ رکھتا ہو اور اس کی حیثیت مستند اور مسلّم ہو۔‘‘ ؂۱

سانت بیو نے اس کلاسیک اور کلاسیکی کی مزید تشریح بھی کی ہے۔ ان کے الفاط ملاحظہ ہوں:

’’ رومن طبقۂ خواص کے ان شہریوں کوکلاسیکی (classici (کہتے تھے جن کی کم سے کم آمدنی ایک مقرّرہ حد سے تجاوز کرتی ہو، اور جن شہریوں کی آمدنی اس مقرّرہ حد سے کم ہوتی تھی وہ طبقۂ خواص سے خارج سمجھے جاتے تھے اور انھیں کلاسیم (classem ( کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ‘‘ ؂۲

ان تو جیہات سے ان لفظوں کے معانی کا دائرۂ کار سمجھ میں آجاتا ہے۔ بشریات، فلسفہ، تاریخ اور ادب جیسے مختلف شعبہ جات میں ان اصطلاحوں کی موجودگی سے رواجِ عام کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یوں بھی مختلف علوم وفنون میں ایک اصطلاح الگ الگ معانی میں استعمال کی جا سکتی ہے ۔ اس لیے کلاسیکیت یا کلاسیک کے سلسلے سے سانت بیو کی تعریف نہایت کارآمد ہے۔ سانت بیوکا کہنا ہے کہ classicus کے لفظ کو ادب کے حوالے سے پہچاننے میں دوسری صدی عیسوی کے مصنّف آلس جیلئں کی خدمات لائقِ توجّہ ہیں۔ اس نے اس لفظ کے مخصوص معنی متعیّن کرنے کی کوشش کی اور اسے ادب اور مصنّفین سے وابستہ کرنے میں وہ کامیاب ہوا۔ اس دائرے میں اس نے ایسے مصنّفین کو شامل کیاجن کی تحریریں قابلِ ذکر تھیں اور ان کی تصنیفات کی سطح اعلا اور عمومی مزاج سے الگ تھی۔ لیکن اسی کے ساتھ آلس جیلئں نے کلاسیک کی تعریف میں اشرافیت کی کیفیات شامل کرتے ہوئے کلاسیکی مصنّفین کی فہرست سے عوامی راگ اور رنگ احتیار کرنے والے مصنّفین کو الگ تھلگ کر دیا۔

سانت بیو نے آلس جیلئں کے تجزیے کی وضاحت کرتے ہوئے جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ کلاسیک کی تاریخی اہمیت سمجھنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ملاحظہ ہو:

’’اس بات سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک تو یہ کہ وہی مصنّف اس ذیل میں آسکتا تھا جوطبقۂ خواص کے مذاق کی ترجمانی کرتا ہو، اور دوسرے یہ درجہ بندی اسی وقت ممکن ہے جب کسی زبان کاادب اتنی ترقّی کر چکا ہو کہ اس میں ادب اورادبی اقدار کی درجہ بندی کی جا سکے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ غیر ترقّی یا فتہ ادبیات میں یہ درجہ بندی ممکن نہیں ہے۔‘‘ ؂۳

گوئٹے کے نقطۂ نظر سے کلاسیکیت کا جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صحت مند ادب کو وہ کلاسیکی قرار دیتا ہے۔ مغرب کی عمومی روایت کو سامنے رکھتے ہوئے وہ کلاسیکیت کے مقابلے رومانیت کو مریضانہ ذہنیت کا عکّاس تسلیم کرتا ہے۔وہ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جدید اور قدیم کی اصطلاحوں کوبھی آزماتا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ قدیم تصنیف کو کلاسیکیت کا درجہ صرف اس لیے نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ وہ پرانی ہے بلکہ وہ اس لیے اہم ہے کیوں کہ بقول گوئٹے ’مضبوط، مستحکم، تازہ، پرمسرّت اور صحت مندانہ ہے۔‘ گوئٹے جدید تصانیف کی قدروقیمت کے تعیّن میں یہ بات بڑے وثوق سے کرتا ہے کہ نیا ادب (جوگوئٹے کے دور میں رومانی ادب تھا اورگوناگوں تجربات کا حامل تھا) کہ نیا ادب سراسر مریضانہ ذہنیت کاعکّاس ہے۔ گوئٹے کی باتوں سے اتّفاق فی زمانہ مشکل ہے لیکن یہ سمجھاجا سکتا ہے کہ تجربہ پسندی اورنئے انداز کی تصنیف وتالیف کے لیے کلاسیکی ذہن کے شیدائیوں کے درمیان بہت کم جگہ بچی تھی لیکن اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جائے کہ نئی دنیا یا نئے تصوّرات کی بنیاد تجربہ پسندی اور نئے ادب کے سرمائے کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔

کلاسیکیت کی طرح ہی روایت بھی ایک وسیع تناظر میں سمجھی جانے والی اصطلاح ہے۔ کلاسیکی ادب یا کلاسیکیت کے اصولی امورپر گفتگو کرتے ہوئے روایت اور روایت شناسی کے لازمی پہلوزیرِبحث آتے ہیں۔سادہ طَور پر روایت کو ہم اسلاف کی صحت مند قدروں سے متعلّق قرار دیتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹی۔ایس۔الیٹ نے ۱۹۱۷ میں اپنے مشہورِزمانہ مضمون ‘Tradition and Individual Tallent’ (روایت اور انفرادی صلاحیت)میں کلاسیکیت، رومانیت،روایت اورتجربہ پسندی کے مختلف پہلوؤں کوبحث میں لاتے ہوئے اس امر میں نتیجہ خیز گفتگو کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح کوئی نیا لکھنے والا کسی فکر کو اپنا کر اسے منزلِ مقصود تک پہنچاتاہے۔ وہ اپنے قُدَماسے کیا سیکھتا ہے اور کون کون سی نئی باتوں کی شمولیت سے وہ معاشرے میں معقول تبدیلیوں کاانجامِ کار بننا چاہتا ہے۔

الیٹ نے انگریزی زبان کی صورتِ حال پر اس پہلوسے اظہارِخیال کیا ہے کہ اس زبان میں روایت کے تعلّق سے زیادہ سنجیدہ اور عالمانہ گفتگوکا فقدان ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ’روایت، روایتی، روایت پسندیا روایت شناس ہونے کی صورت کواکثروبیشتر ایک منفی صورتِ حال کے طَورپرقابلِ غورسمجھا گیا ہے، جودرست نہیں ہے۔الیٹ روایت کوذرا زیادہ پُرازمعنیٰ اوروسیع حقائق کا عَلَم بردار تسلیم کرتاہے۔ وہ روایت کو آنکھ بند کرکے اتباع کرنے کا نام نہیں دیتا۔ وہ تکرار کی کیفیت یا حقائق کے دہرانے سے بہتر جدّت کو سمجھتاہے۔روایت کوسمجھنے کے لیے الیٹ کاتقاضہ ہے کہ ہم میں تاریخی شعور لازمی طَور پر ہونا چاہیے۔ صرف ماضی کی ماضیت پر انحصار نہیں چلے گابلکہ اس ما ضی میں موجودہ عہد کی گونج کیسے شامل ہوگی ، اس کااسے احساس ہونا چاہیے۔الیٹ نے اس کی وضاحت یورپ کے تناظر میں کچھ اس طرح سے کی ہے۔

’’تاریخی شعور ادب کو مجبور کرتا ہے کہ لکھتے وقت جہاں اسے اپنی نسل کا احساس رہے ، وہاں یہ احساس بھی رہے کہ یورپ کا سارا ادب ہومر سے لے کر اب تک ، اور اس کے اپنے ملک کا سارا ادب ایک ساتھ زندہ ہے اور ایک ہی نظام میں مربوط ہے۔ یہ تاریخی شعور، جس میں لا زماں اور زماں کا شعور الگ الگ شامل ہے، وہ چیز ہے، جو ادیب کو روایت کا پابند بناتا ہے اور یہی وہ شعور ہے جو کسی ادیب کو ’زماں‘ میں اس کے اپنے مقام اور اپنی معاشرت کا شعور عطا کرتا ہے۔ ؂۴

روایت اور تجربہ پسندی کی اس بحث سے ہم اس نتیجے پرپہنچتے ہیں کہ کلاسیکیت اورروایت شناسی کی تجربہ پسندی سے کوئی معکوسی نسبت نہیں۔ تجربہ پسندی اور جدّت کے بغیر ہم روایت کوگہرائی سے سمجھ نہیں سکتے اور روایت کا سلیقہ مند شعور جب تک نہ آئے تب تک کلاسیکیت کی پرتوں کو کھولا نہیں جا سکتا۔ اس لیے کلا سیکیت یا روایت کو تجربہ پسندی یا کسی دوسری چیز کی ضد کے طَورپر سمجھنا ایک ادھورا علم ہے۔ کلاسیکیت کا وسیع معنوں میں اعتراف اور آگہی روایت اور تجربہ پسندی کے مفاہیم پر گہری نظر رکھے بغیر ممکن نہیں۔

عصرِنَو کے تقاضے

تاریخی طَور پر کلاسیکیت کو ایک جامدتصوّر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس کے عمومی اور خصوصی معانی تو ہیں ہی ، اطلاق کے پہلو سے بھی مفاہیم مرتب ہو تے ہیں۔ اندرونی طَور پر اس لفظ کے دائرۂ کار میں بہت سارے ایسے موضوعات بھی آتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد سمجھ لیے جائیں گے۔ کلاسیکیت کو اپنے عہد کے تناظر میں سمجھنے کے لیے ہمیں درج ذیل امور پر خاص طَور سے متوجّہ ہو نا چاہیے؛

الف۔        شعروادب کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے اس بات پر غورکرنا چاہیے کہ کون سی چیز کن حالات میں کلاسیکی اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔

ب۔          کلاسیکیت کا حصول خود اختیار کردہ ہے یا کسی جبریہ تصوّر کا نتیجہ ہے۔

ج۔           کن اسباب وعلل کے نتیجے میں کوئی تخلیق کلاسیکی اہمیت اختیار کرنے میں کامیاب ہوئی۔

د۔ کسی شے کی کلاسیکی حیثیت پانے کی جو صورت ہوتی ہے، کیا اس میں صدیوں کی لازمیت سبھی مانتے ہیں؟

ہ۔ کیا یہ بات قابلِ توجّہ نہیں کہ جو تخلیق آج کلاسیکیت کا درجہ اختیارکرگئی ہے، ماضی میں جب وہ لکھی گئی تھی ، اس وقت اسے کیااسی اہمیت کے ساتھ قبول کیا گیا تھایا وہ اپنے زمانے کی ا یک نامعلوم سی شے تھی؟

و۔ کیا زمانے کی نئی کروٹوں کے ساتھ ادب اور کلاسیکی اصولوں کے مابین واضح تبادلۂ خیالات کے امکانات ہیں؟

ز۔ مختلف زمانوں میں شعروادب کے ارتقا کے جو مراحل سامنے آئے ان میں اگر کلاسیکیت ایک بنیادی اصول ہے تواس کے موجودہ عہد سے تعلّق کے بارے میں علمائے ادب کیاکہتے ہیں؟

ح۔ اگر کلاسیکیت ،رومانیت ،ترقّی پسندی اورجدّت وتجربہ پسندی کے بطن سے پیدا ہوتی ہیں اور وقت کی کسوٹی پرانھیں آخری پہچان ثابت کرنی پڑتی ہے تو اس سے انکار ممکن نہیں کہ ان ادبی رویّوں کے واضح طور پر آپسی رشتے قائم ہوتے ہیں۔

ان امور پر غور کرنے سے ہمیں یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ کلاسیکیت کوئی آسمانی شے نہیں اورادب کی اقدار اور تعیّنِ قدر سے اس کا براہِ راست تعلّق ہے۔وہ ادب جسے تاریخی جبر کے باوجود خود کو محفوظ کرکے اگلی نسلوں تک منتقل کر لینا ہو، وہ ادب بلاشبہ کلاسیکی خصوصیات کا حامل ہو گا۔کلاسیکی عناصر کی شمولیت یا موجودگی سے ادب کی زندگی میں اضافہ ہو تاہے۔کوئی ادب اس وقت تک کلاسیکیت کا ترجمان نہیں ہو سکتا جس وقت تک وہ ہم عصرتحریکات، عصرِحاضر کے مسائل و مباحث اور زندگی کے نئے تجربات کی بھٹّی سے تپ کر کندن نہ بنے ۔ اس لیے ہمارے نقّادوں کے اس طبقے کو زیادہ توجّہ نہ ملی جنھوں نے ادب کے کلاسیکی دبستان کو بے وقت کی راگنی یا ایک ازکارِ رفتہ تصوّر قراردیا، وہ ادب جہاں مختلف ادوار اور تاریخی کروٹوں سے آگے بڑھ کر نئے ادبی اصول وضوابط مقرّر کیے جاتے ہیں وہاں کلاسیکیت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔کلاسیکیت حقیقت میں ہر تجربہ پسندی اور ہر جدّت سے مقابلہ کرتے ہوئے اپناعلمی وجود مستحکم کرتی ہے، اسی لیے یہ ہماری خام خیالی ہوگی کہ کلاسیکیت عصرِحاضر کی ادبی،علمی اور فلسفیانہ تقاضوں سے دور کا رشتہ رکھتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ براہِ راست کلاسیکیت تجربہ پسندی اور جدّت سے گریزاں نہیں ہو تی بلکہ ان سے ادب اور زندگی کے دائمی اوصاف کَشید کر کے معقول حتمی اصول وضوابط متعیّن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے کاسیکیت کو روایت، رومانیت، جدیدیت یا کسی تجربہ پسندی کی تحریک سے بہ خوشی متعلّق کیا جاسکتا ہے۔

Related posts

Leave a Comment