عمران الحق چوہان ۔۔۔ علی اصغر عباس: خواب زاد

علی اصغر عباس: خواب زاد

ہر انسان کی طرح علی اصغر عباس کی شخصیت کے بھی کئی پہلو ہیں۔ ادبی و علمی حوالے سے وہ شاعر ہیںاور صحافی بھی۔ صحافت میں وہ اداریہ نویسی، کالم نگاری، انٹرویو سے لے کر رسائل کی ادارت تک کے تناظر میں اپنی جداگانہ پہچان اور نام رکھتے ہیں۔ ادب میں انھوں نے شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری بھی کی لیکن شاعری اور افسانہ نگاری میں سوتنوں والا بیر ہے۔ ایک موڈ کے طابع ہے تو دوسری مشقت کی متقاضی۔ ایک میں بات کنائے میں کہنی ہوتی ہے اور دوسری میں کھول کر بیان کرنا پڑتی ہے۔چوں کہ علی اصغر عباس کاپہلا عشق شاعری تھا اس لیے انھوں نے افسانہ نگاری کو فارغ خطی دے دی۔ شعر کہنا ان کے مزاج سے لگّا کھاتا ہے اس لیے وہ شعر بغیر کسی مشقت ہی کے کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں۔
میں اپنے ممدوح کی شخصیت پر بات کرنے کے لیے اسے دو حوالوں سے دیکھتا ہوں۔ ایک تو ’’علی اصغر عباس صا حب‘‘ ہیں، اردو، پنجابی کے شاعر، جوغزل اور نظم دونوں اصناف میں شاعری کرتے ہیں، کالم نگار، سابقہ بنکروغیرہ۔ دوسرے ہیں ’’اصغر بھائی‘‘ جو میرے لیے ہمیشہ مشفق، ہم درد، دوست، مدد گار اور حو صلہ افزا رہے ہیں۔ حو صلہ افزا یوں کہ میں بنیادی طور پر لکھنے میں بہت کاہل اور تساہل کا عادی ہوں۔ اگر ان کا اصرار نہ ہوتا تو میری دو کتابیں کبھی مکمل ہو کر طباعت کی صورت نہ دیکھتیں۔ اسی طرح مجھ سے کالم نویسی بھی انھیں کی ستایش اور حو صلہ افزائی نے کروائی۔
میری علمی استعداد اتنی نہیں کہ میں کسی باقاعدہ نقاد کی طرح ادب و صحا فت کی نسبت سے نثر و نظم کی خوبیوں خا میوں پر تبصرہ کر سکوں اس لیے میں ان کی شخصیت کے بارے میں جو بھی عرض کروں گا وہ ’’اصغر بھائی‘‘ کے حوالے سے اور ایک چھوٹے بھائی اور دوست کی نسبت سے کروں گا۔
میرے ان سے تعارف کو ایک چوتھائی صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چلا ہے۔ اگر چہ ان سے تعارف و تعلق کی بنیاد شاعری ہی تھی لیکن بعد میں وہ میرے لیے ایک شاعر سے زیادہ بڑے بھائی کی حیثیت اختیار کر گئے۔ یادش بخیر میں ان دنوں گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں گریجو ایشن کا طالب ِ علم تھا۔ اپنے شہر چنیوٹ میں نثار محمودمیرے دوستوں میں نیا نیا شامل ہوا تھا۔ وہیں نثار کے گھر میری پہلی ملاقات علی اصغر عباس کے ساتھ ہوئی۔ وہ نثار کے بہنوئی تھے اور اپنے دوست کی وجہ سے میں بھی انھیں اصغر بھائی کہنے لگا۔پنجاب یونی ورسٹی لاہور میں دا خلے کے بعد میرا ان سے تعلق تکلف و احترام کی حدوں سے بڑھ کر بے تکلفی اور دوستی کی حدود میں دا خل ہوا لیکن وہ میرے لیے ہمیشہ اصغر بھائی ہی رہے۔ ان دنوں وہ سٹیٹ بنک آف پا کستان میں ملازم تھے اور آج سے کچھ مختلف ہوتے تھے۔چہرے پر سفید ریش ِ کی جگہ جوانی کی سرخی جھلکتی تھی۔ البتہ ان کی خوش لباسی، مسکراہٹ اور آنکھوں کی شوخی میں آج بھی کوئی فرق نہیں آیا۔
میں کبھی کبھی ان سے ملنے سٹیٹ بنک چلا جاتا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اصغر بھائی میں، شاعر ہونے کے باوجود، وہ یبوست، تلخی اور بے زاری نہیں تھی جو ہمارے ہاں شاعروں کی وجہِ شہرت یا ذلت ہے۔ وہ توا ضع، انکسار اور محبت کا پیکر تھے۔اصغر بھائی نہ صرف اچھا جملہ کسنے کا موقع کبھی ضائع نہ کرتے بلکہ میرے کسی مزاح یا طنز کی بھی جی کھول کر داد دیتے۔ ان سے مل کر یو نی ورسٹی آتا تو طبیعت بہت دیر تک ترو تازہ و شگفتہ رہتی۔
انھی دنوں میں اور طاہر میر ’’نیشنل ٹائمز‘‘ نامی ماہنامے سے جز وقتی وابستہ ہوئے تو اصغر بھائی بھی وہیں تھے۔ نیلام گھر فیم طارق عزیز اس رسالے کے مدیر تھے۔ہمارے فرائض ِ منصبی میںمضامین لکھنا، تراجم اور انٹرویو کرنے کے ساتھ ساتھ مردانہ و زنانہ فرضی ناموں سے مدیر کے نام رسالے کی تعریف میں خطوط تحریر کرنا بھی شامل تھا جو اگلے شمارے میں شایع ہو کر نا معلوم قارئین (اگر وہ کہیں تھے) کا اگلے شمارے کی خریداری کے لیے حو صلہ بڑھاتے اور ہمیں شرم سار کرتے تھے۔ ہم نیلا گنبد کے پاس واقع عمارت کے دوسرے فلور پرنیشنل ٹائمز کے دفتر میں عموما ًسہ پہر میں اکٹھے ہوتے اور خوب محفل جمتی۔ اصغر بھائی کی صحبت میں وہ وحشت اور خشکی نہیں تھی جو چھوٹوں کو بزرگ بیزار بناتی ہے۔ یو نی ورسٹی کا نیو کیمپس یہاں سے دور تھا اس لیے جب کبھی دیر ہو جاتی تو میں رات گزارنے کے لیے اصغر بھائی کے ساتھ ان کے گھر سنت نگرچلا جاتا۔ جہاں نثار کا دوست ہونے کے ناتے ان کی بیگم میرا سگی بہنوں کی طرح خیال رکھتیں اور میری دیکھ بھال اور خا طر مدارت کرنے میں کبھی کوی کمی نہ چھوڑتیں۔ نثار کا چھوٹا بھائی طارق بھی ان دنوں لاہور میں بہ سلسلہ تعلیم انھی کے پاس قیام پزیر تھا۔ اس سے پہلے سے دوستی کی وجہ سے ماحول کی جھجھک مزید کم ہو جاتی اور مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے میں چھٹی پر اپنے ہی گھر آیا ہوا ہوں۔
نیشنل ٹائمز اپنے مالکان کی شامت اعمال سے کیفر ِ کردار کو پہنچا تو میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوگیا۔ میں سنڈے میگزین(تب جمعہ میگزین) سے وابستہ تھا جہاں میرے باس رضا سہیل صا حب تھے جواصغر بھائی کے برادر ِ خورد تھے۔ یوں اصغر بھائی سے تعلق کی ایک اور شکل بن گئی جو کہ کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔ رضا سہیل انتہائی متلون مزاج اور گرم طبیعت کے مالک تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنا بے حد صبر، حو صلے اور برداشت کا متقاضی تھا۔ وہ مزاج کے اعتبار سے اصغر بھائی کے یک سر برعکس تھے۔ اذیت پسند، بے لحاظ، غیر معمولی غصیلے اور زبان کے کڑوے۔ میں نے کبھی دو سگے بھائی مزاجاً اس قدر متضاد نہیں دیکھے۔ رضا سہیل کچھ سال بعد جوانی ہی میں فوت ہوگئے۔ غالباً ان کی موت بھی بلڈ پریشر بڑھنے اور دما غ کی نس پھٹنے سے ہوئی تھی۔
اپنی قانون کی ڈگری لینے کے بعد مجھے بہ وجہ خانگی حالات اپنے ہی شہر چنیوٹ میں رہ کر وکالت کرنا پڑی۔اب یہ ہوا کہ اصغر بھائی عید تہوار پر اپنے سسرال چنیوٹ آتے تو وہاں بھی ان سے ملاقات رہتی۔ لاہور تو جھنگ سے ہجرت کے بعد خیر ان کا اپنا ہی شہر بن چکا تھا۔ اصغر بھائی کے تین بھائی اور بھی تھے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے ایک تو چھوٹا بھائی رضا سہیل اور دو بڑے بھائی علی اکبر عباس اور نذیر ناجی جو اپنی خوبیوں کی بنا پر کسی تعا رف کے محتاج نہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ چاروں بھائیوں نے صحافت اور ادب میں ایک دوسرے کے حوالے کے بغیرخوب نام کمایا۔ کیا صحافت و ادب میں انیسویں صدی کی تین انگریز ناول نگار برانٹے بہنوں (Bronte Sisters)کے علاوہ اس کی کوئی اور مثال ہے ؟ کم از کم میرے علم میں تو نہیں۔
لیکن بد قسمتی سے چاروں بھائیوں کے ما بین روایتی گرم جوشی اور محبت کا فقدان تھا۔ سب اپنی اپنی دنیا اور اپنے اپنے گھر بار میں گم تھے اور رشتے داری کا تعلق بس کہنے کو اور کافی بودا تھا۔ اسی وجہ سے اصغر بھائی عید تہوار پر بچوں کے ساتھ اپنے سسرالی گھر چنیوٹ آجاتے تھے۔ خونی رشتوں کی بنیادوں پر جب ایثارکی دیواریں اور محبت کی چھت ہی نہ ہو تو آدمی سر چھپانے کے لیے دوسرے درجے کے رشتوں کو گلے لگا لیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود رشتوں کے حوالے سے میں نے ان کی زبان پر شکایت اور لہجے میں بے ادبی کبھی نہیں دیکھی۔ انھوں نے احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔وہ چنیوٹ آتے تو بھی ان سے خوب ملاقاتیں رہتیں۔ کبھی میں ان کے ہاں چلا جاتا ،کبھی وہ میرے گھر تشریف لے آتے۔
ایسے ہی کچھ دن تھے جب اصغر بھائی بڑی عید پر چنیوٹ میں تھے اور میرے گھر چائے پر مدعو تھے۔ انھوں نے اپنی ایک غزل سنا نا شروع کی۔ دیکھا گیا ہے کہ غزل کا مطلع عام طور پر عمدہ نہیں ہوتا، اسے محض غزل کی ہئیت کے احترام میں گھڑا یا بنا یا جاتا ہے۔ اصغر بھائی نے اس روز جب غزل شروع کی تو اس کا مطلع ان کے ہو نٹوں سے نکل کر سیدھا میرے دل میں اتر گیا۔ میں نے شامی کباب کی پلیٹ ہاتھ سے رکھ دی اور یہ مطلع بار بار ان سے سنا۔مجھے آج بھی اس غزل کے مطلع کے سوا اس کا کوئی شعریاد نہیں ہے۔ وہ مطلع یہ تھا:
زندگی گزار دی ایک خواب دیکھتے
دشت پار کر گئے ہم سراب دیکھتے
یہ شعر ان نا آسودہ تمناؤں اور بے ثمر خواہشوں کا نوحہ تھا جو ایک عام آدمی کہنا چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں پاتا۔ یہ زندگی کی تلخ حقیقت بھی ہے اور رنج و محن سے بھری زیست کی آسایش بھی۔ یہ وہ احساس ہے جو ہر آدمی کا تجربہ ہے۔ یہ شعر ان کے اولین شعری مجموعے’’خواب زاد ‘‘میں شامل ہے۔ ہر اوریجنل لکھاری کی طرح اصغر بھائی دو دنیاؤں کے باسی ہیں۔ ایک ارد گرد کی مادی دنیا اور دوسری خیال و خواب کی دنیا۔جو لوگ خواب دیکھتے اور خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیںوہ کبھی آسان زندگی نہیں گزار پاتے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ حقیقت اور خیال کی رزم گاہ میں صورت ِ امتحان گزرتا ہے:
سراپا عشق ہوں اک امتحاں میں رہتا ہوں
بھی زمین، کبھی آ سماں میں رہتا ہوں
اصغر بھائی زود گو اور بسیار نویس ہیں۔ طبیعت مائل ہوئی تو ’’دل‘‘ کی ردیف ہی میں اتنی غزلیں کہہ ڈالیں کہ ایک الگ مجموعہ بن گیا۔ اسی طرح بوسے کی ردیف ہے۔ نثر ہو یا نظم ان کا قلم یک ساں روانی سے چلتا بلکہ فراٹے بھرتا ہے۔ اردو اور پنجابی دونوں میں کہتے ہیں۔ نظم اور غزل کی شاید تمام رائج ہئیتیں برت چکے ہیں۔ غزل کا اپنا مزاج ہے لیکن اس کی صورت گری میں شاعر کا اپنا لب و لہجہ، جذبات و احساسات اور مشاہدہ و مطالعہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سو غزل گوئی میں ان کا اپنا ایک انداز ہے۔ ان کا انتخاب ِ الفاظ و تراکیب (diction) عام شعرا سے مختلف ہے۔ یہی انفرادیت کبھی کبھی ابلاغ ِ عامہ میں رکاوٹ بھی بن جاتی ہے لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا جب شاعر کو اپنے قاری کی ذہنی سطح اور رجحان ِ طبع کا خیال رکھ کر شعر کہناپڑتا تھا کیوں کہ اس زمانے میں کتاب ناشر چھاپتا تھا اور اس کا کا روبار تبھی چلتا تھا جب کتاب بکتی تھی اور کتاب بکنے کے لیے قاری کی پسند اور تائید کو فوقیت حاصل تھی۔ اب زمانہ دوسراہے۔ کوئی ناشر کتاب چھاپنا ہی نہیں چاہتا کہ فیس بک اور واٹس ایپ کے زمانے میںیہ خسارے کا سودا ہے لہٰذا شاعر کو شعر کہنے کے علاوہ اپنا مجموعہ بھی خود ہی چھا پنا اور با نٹنا پڑتا ہے۔ اس سے صرف یہ فائدہ ہوا ہے کہ شاعر اور مصنف قاری کے دباؤ سے نکل کر اظہار ِ خیال میں آزاد ہو گیا ہے۔لیکن پہلے کتاب لکھنا اور پھر چھاپنا، درد ِ سر یہ بھی تو ہے۔اس کے باوجود علی اصغر عباس نے جو اپنے تین مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ کرلیے ہیں تو یہ ان کی ہمت کی بات ہے۔
ان کی کتابوں میں دوشعری مجموعوں کے علاوہ نعتیہ مجموعہ بھی شا مل ہے۔ نعت میں ان کا قلم روایتی نعت گو شعرا سے اس طرح مختلف ہے کہ تاجرانہ سطح تک مقبولیت پسند اور داد خواہ نعت گو حضرات توصیف ِ رسولﷺ میں غزل کا مبالغہ اورسطحی جذباتی پن لے آتے ہیں اور اس عمل میں بسا اوقات توحید و تہذیب کی حدود شکنی کے مرتکب بھی ہوجاتے ہیں۔ علی اصغر عباس کی نعت میں احترام اور احتیاط کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ وہ مدحت نگاری میں اللہ اور رسول ﷺ کے درمیان فرق اور دینی تہذیب و شائستگی کا غیر معمولی لحاظ رکھتے ہیں:
طوف ِ کعبہ میں روایت ہے رواں بوسے کی
ایک سنت نے کیا رتبہ سوا بوسے کا
یا پھر
زمیں کا مرکزہ طیبہ کا خطہ
یہی کونین کا بھی مرکزہ ہے
وہ مذہبی شاعری کے اندر بھی حقیقت ِ واقعہ اور صحت ِ خیال کا بہت اہتمام کرتے ہیں۔ مثلا ً:
مخاطب آج بھی قرآن کا تو انساں ہے
کلام رب ِ علیٰ نے اسی کے نام کیا
اسی طرح ان کی غزل بھی مختلف ہے۔ غزل کا دامن محض عورتوں سے باتیں کرنے یا عورتوں کی باتیں کرنے سے بڑھ کر زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود اس کا حسن اشارے اور کنائے ہی میں ہے۔ اچھے شعر اور اخبار کی خبر میں فرق رہنا ہی چاہیے۔ بقول مشتاق احمد یوسفی ’’جو شعر پانچ چھے سو کے مجمعے کو بہ یک وقت سمجھ آجائے وہ اچھا شعر ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ اصغر بھائی کا شعر بھی اکثر اوقات تہ دار ہوتا ہے۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ان کے شعر میں احساس اور امیجری ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ان کی امیجری میں ہلکا سا ابسٹریکٹ ایلیمنٹ (abstarct element) ہے جو شعر کو خواب کا دھندلکا اور ایک رومانی تجسس بخشتا ہے۔ یہ ان کا اپنا انداز ہے:
گرد ہوتے ہوئے رستے میں اڑی دھول مری
خاک نے پوچھا کہ ہم ذات کدھر جاتی ہے
یا
دھوپ آنگن میں اترتی دیکھ، خندہ لب شجر
سائے سے مل کر ہوا ہے ہم رکاب ِ زندگی
ایک جگہ اور لکھتے ہیں :
میں آسمان کی وسعت سمیٹنے کو تھا
وہ ایک فا ختہ اڑتی مگر ہوا میں ہے
جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ ان کی تقریبا ً ساری شاعری میں یہ ابسٹریکٹ ایلیمنٹ ہے جو اسے الفاظ کی سطح سے اٹھا کر خیال کی لطیف بلندی تک لے جاتا ہے۔ خواب کا استعارہ ان کا پسندیدہ ترین ہے اور وہ جا بہ جا اسے برتتے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’خواب زاد‘‘سے درج ِ ذیل شعر تک وہ ہر فن کار کی طرح خواب کی دنیا کے باسی نظر آتے ہیں:
تا حد ِ گماں خواب سرائے کا مسافر
اوڑھے گا مسافت کہ یہ چلنے کی سزا ہے
بے ثباتیِ حیات کا مضمون شاعری میں عام اور شاعروں کا پسندیدہ ہے۔ انھوں نے اسے بھی اپنے مخصوص انداز سے برتا ہے:
نقش بر آب زمانے کی طرح ہوں میں بھی
دیکھ مٹتا ہوں ابھی اور ابھی بنتا ہوں
ایک جگہ کہتے ہیں:
ہم نے کیا زندگی گزاری ہے
شرم ساری سی ہو رہی ہے دوست
آج ذکر ِ بتاں پہ جانے کیوں
ناگواری سی ہو رہی ہے دوست
محولہ بالا دونوں شعر غالبا ً داڑھی رکھنے کے بعد کے ہیں۔
نظموں میں بھی ان کا یہی انداز جھلکتا ہے۔ مو ضوعات کا تنوع اور احساس کی توانا رَو اسے قاری کے لیے پر کشش اور دل پزیر بنا تے ہیں:
دُور کسی کو نیند نہ آئے
آنکھ مری لگ جائے (آگہی)
یا
میں نے خلوت کی ردا کھینچ کے خاموشی کو
اک زہر خند سی مسکان کا چابک مار ا (تنہائی)
ان کی نظمیں، رفو گر، روشنی کی تجارت، از رفتہ وغیرہ اس حو الے سے اہم نظمیں ہیں۔
یہ ساری باتیں کسی نقاد کی نہیں ایک چھوٹے بھائی کی ہیں، اس لیے مجھے ان پر اصرار کا تقاضا نہیں ہے۔ ان کا تعلق میرے ذاتی تجربے، مشاہدے اور محسوسات سے ہے۔ اگر کوئی اور بھی میری رائے سے اتفاق کرے تو مجھے خوشی ہوگی۔ وہ ایک عمدہ ادیب اور صحا فی ہونے کے ساتھ ساتھ، پیار بانٹنے والے بے حدمحبتی اور مخلص انسان ہیں۔میں تو ان کا مداح اور معتقد ہوں اور رہوں گا۔ دعا گو ہوں کہ وہ اسی طرح قلم کاری سے دامن ِ ادب پر گل بوٹے بناتے رہیں اور چمن زار لوح و قلم کی بہار اُن کی منت کش رہے۔

Related posts

Leave a Comment