توقیر عباس ۔۔۔ علی اصغر عباس کی نظم اور اس کے مضمرات

علی اصغر عباس کی نظم اور اس کے مضمرات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے تو علی اصغر عباس کی نظموں کے بارے میں چند باتیں کرنا ہیں۔ نظم کی قرأت ممکن ہے کچھ لوگوں کے لیے آسان ہو لیکن میرے لیے ایک مشکل کام ہے۔مجھے یہ بھی کہنے میں عار نہیں ہے کہ کسی بھی زبان میں جن الفاظ کو طے شدہ معانی کے ساتھ معمول بنا لیا جاتا ہے، وہ اطلاع یا معلومات سے زیادہ عادت بن جاتے ہیںاور کوئی بھی شخص یہ حقیقت بیان کر سکتا ہے جب زبان کا ایک مخصوص حصہ برتا جارہا ہو،وہ زبان اردو فارسی انگریزی بھی ہو تو اس میں انگریزی، فارسی، عربی اور فرنچ زبانوں کا شعور ہو سکتا ہے،جب آپ کوئی یورپی زبان برتیں تو تب بھی، اگر چینی زبان استعمال کر تے ہیں تو یورپی کا شعورہو سکتا ہے۔ان میں سے پہلی بات جیسی نظر آتی ہے اس سے کہیں زیادہ واضح ہے۔بول چال میں جب کوئی لفظ متوقع لفظی ذخیرے سے ہٹ کر استعمال ہو تو ہلچل پیدا کرتا ہے۔کئی خطیب اپنے خطبوں میں اس حقیقت کو فراخ دلی سے استعمال کرتے ہیں۔واضح طور پر اس حصے کا تعین مستعمل الفاظ کی گنتی کے بجائے اس کے خواص سے ہوگااور الفاظ کا مفہوم بدل جائے گا۔یاد رہے مجھے کسی نظم کی تشریح نہیں کرنی ہے بلکہ نظم میں موجود مضمرات اور مخفی معانی کی جستجو سے دلچسپی ہے۔ کسی بھی ادب پارے میں جب لفظ برتے جاتے ہیں،اپنے ساتھ ماضی کی گونج،خود سے منسوب استعارے اور تشبیہیوں کے سائے بھی لے کر آتے ہیں۔ ان کا پورے ادب پارے سے کیا ربط بن سکتا ہے،ناقد کو اسی کی جستجو ہوتی ہے۔کسی ایسے معانی کی بازیافت کرنا جو نظم یا فن پارے کے ایک حصے سے متعلق ہو لیکن دوسرے حصے سے اس کا کوئی ربط ہی نہ ہو،ایک رائگاں کوشش کہلا سکتی ہے میں تو اسے گناہِ بے لذت کہتا ہوں۔ ممکن ہے کہیں کہیں یہی گناہ کمانے کی کوشش میں بھی کر بیٹھوں تو اسے ایک عام قاری کی لغزش سمجھ کر نظر انداز کیجے گا۔جو لوگ نظم کو پورے شعور کے ساتھ لکھتے ہیں، ان کے ہاں عموما ایک سپاٹ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے،جیسے سیمنٹ شدہ دیوار رنگ و روغن سے لیپی پوتی ہوئی، جس کے دوسری طرف جا نے یا دیکھنے کو ہلکی سے جھری بھی نہ ہو۔ کیوںکہ کسی علامت یا استعارے کی تشکیل کرتے ہوئے،بہت سے اجنبی انسلاکات بھی بن جاتے ہیں جو قاری کے لیے چیستان سے کم نہیں ہوتے ہیں۔ مگر وہ نظمیں جن میں کہانی جیسی کیفیت ہو اور قواعد کا جابرانہ استعمال نہ ہو،چیزوں کو ابہام کے انداز میں اشتراک کی بنا پر جوڑا گیا ہو،ان کے ابعاد میں جھانکنا اور دور تک دیکھنا ممکن ہوتا ہے، بلکہ نظم خاص کیفیت بھی طاری کرتی ہے۔ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔علی اصغر عباس کی نظم ’’آج کا کرب‘‘کی مثال پیش کرتا ہوں :

آج کا کرب!
چائے بناتے ہوئے گیس کم ہوگئی
چولہا جلانے کی کوشش میں
آخری ماچس کی چار تیلیاں بھی جل بجھیں
چولہے پہ دھرے برتن میں سادہ پانی
چائے بننے کے انتظار میں
آنچ بھر حرارت کو ترستا ہے
اور میں
کڑوے کسیلے قہوے کے دو گھونٹ کو
یہ بہت معمول کا اور دیکھا بھالا تجربہ ہے۔ نظم کے مضمرات کے طور پر کہ سکتے ہیں: یہ نظم رات کے کسی لمحے کا تجربہ ہے،شاعر نے ماچس کی آخری چار تیلیوں کا بطور خاص تذکرہ کیا ہے، چار تیلیوں کی خاص جغرافیائی معنویت بھول کر، یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اس وقت دوسری ماچس کا ملنا مشکل ہے کیوںکہ رات کا وہ وقت ہے جب مارکیٹیں، دکانیں بند ہیں جہاں سے ماچس خریدی جا سکتی تھی۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب سبھی لوگ سہتے ہیں لیکن یہ لوڈ شیڈنگ سرما میں ہوتی ہے،اس لیے نظم سردی کے موسم کی طرف اشارہ کر تی ہے۔’’چولہے پر دھرے برتن میں سادہ پانی آنچ بھر حرارت کو ترستا ہے اور متکلم کڑوے قہوے کو‘‘ متکلم اور سادہ پانی ایک جیسی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ٹھنڈا چولہا اور برتن میں پانی فاعل ہیں،اور ترسنا فعل ہے۔ متکلم بھی فاعل ہے جو کڑوے قہوے کے دوگھونٹ کو ترستا ہے۔ بغیر تشبیہ کے چولہا، برتن، پانی اور متکلم ایک جیسی یکساں کیفیت کے حامل بلکہ اب ایک جیسے ہی نظر آتے ہیں۔ پانی حرارت یعنی آگ کو ترستا ہے اور شاعر قہوے کو،یہاں ہم قہوے کو آگ اور حرارت کے معنوں میں بھی لے سکتے ہیں۔ تمام چیزیں ایک عمل کے لیے لازم ملزوم ہیں اس لیے یہ وحدت میں ڈھل کر ایک ہی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں؛ مایوسی اور بے بسی کی انتہا۔جب ہر چیز اپنی طرح بے چاری،دکھیا اور مصیبت زدہ نظر آتی ہے، یہاں شاعر نے تشبیہ کے بغیر یہ کمال کر دکھایا ہے۔ یہاںشاعرچولہا،برتن،پانی ایک اکائی میں ڈھل گیے ہیں۔ چار تیلیوں کو چار صوبوں کے تناظر میں دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ مفاد و مطلب جو قہوے کی پیالی جتنی حیثیت کا حامل ہے کے لیے تمام صوبوں کو دائو پر لگا کر بھی کچھ حاصل نہیں ہوا اور شاعر اپنے اڑوس پڑوس سے بھی مایوس ہے جہاں سے تیلی کا حصول ناممکن ہے۔ نظم میں لفظوں کا یوں استعمال اردو میں بہت کم نظر آتا ہے۔
ہر زبان میں کچھ مردہ استعارے ہوتے ہیں جو لفظوں میں مخفی طور پر جگہ پالیتے ہیں اور لفظوں کو اپنے پنجوں سے نکلنے نہیں دیتے ہیں۔ اردو میں کئی استعارے مردہ ہیں۔ممکن ہیں کوئی ذہین ناقد ان کو نئی معنویت سے جوڑ کر زندہ کر دے۔ جیسے بلبل،پھول، چراغ،ستارے وغیرہ۔ یہ الفاظ جہاں بھی آتے ہیں ان کے تمام استعاراتی معانی اور تلاذمات و انسلاکات فورا ذہن میں آجاتے ہیں۔یعنی یہ خالی مشکیزے ہیں جن سے پانی کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا گیا ہے۔ کم از کم مجھے تو ان کی نئی تفہیم نہیں سوجھتی ہے۔
علی اصغر عباس نظموں میں صنائع بدائع کا اہتمام نہیں کرتا بلکہ مجرد لفظوں کو یوں برت جاتا ہے کہ ان میں کئی مخفی معانی پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور چیزیں آپس میں ہم آہنگ ہو جاتی ہیں اور ایک نئے معنی کی نمود کرتی ہیں۔ ہم آہنگ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یا تو ان اشیا میں مشابہت پیدا ہوتی ہے یا متضاد کیفیات جنم لیتی ہیں۔ ’’اوہ خدا‘‘ میں علی اصغر عباس نے نہایت مہارت سے کئی متضاد چیزوں کو ایسی ترتیب دی ہے کہ ان میں مضمرات قائم ہو گئے ہیں۔ یہ مضمرات شاعر نے نہیں سوچے ہوتے ہیں۔ذیل کی سطریں مثال کے طور پر پیش ہیں:
میں آج خالی ہوا پڑا ہوں
کہ ساٹھ برسوں کی کائی چہرے پہ
جم کے مجھ کو بتا رہی ہے
کہ کوڑھ مغزی نے
کھوپڑی کے
وہ سارے روزن ہی ڈھو دیے تھے
جہاں سے تازہ خیال گھسنے کا شائبہ تھا
’’خالی پڑا ہوا ہوں‘‘ کے کئی معنی ہو سکتے ہیں: خالی ذیقعد کے چاند کو کہتے ہیں، عرب اس ماہ قیام کرتے ہیں، جنگ و جدل سے دور رہتے ہیں، کچھ لوگ اس ماہ کو منحوس خیال کرتے ہیں۔ خالی، بھرے ہوئے کا نقیض بھی ہے، بے کار، تہی دست، کھوکھلا، مفلس، غیر آباد اجڑا ہوا۔
کائی، پانی سے منسوب ہے، جب پانی رواں نہیں رہتا،کہیں ایک جگہ رک جاتا ہے تو اس پر کائی جم جاتی ہے۔’’ساٹھ برسوں کی کائی‘‘ہے تو مراد یہی ہو سکتی ہے کہ ساٹھ برسوں سے کوئی حرکت نہیں کی ہے۔ خالی پڑا ہوا ہوں،یعنی تہی دستی کا سبب یہی ہے کہ ساٹھ برسوں سے کوئی حرکت نہیں کی۔ اگر دریا کی طرح رواں رہتا تو خالی نہ ہوتا۔ لیکن کائی چہرے پر جمی ہے چہرہ آئنہ ہوتا ہے اور دریا بھی آئنہ ہوتا ہے۔ یہاں ہم کائی سے مراد داڑھی بھی لے سکتے ہیں جو حرکت نہ کرنے، کہیں نہ آنے نہ جانے کے سبب خود بخود بڑھ گئی ہے۔ ’’کوڑھ مغزی نے سارے روزن ہی ڈھو دیے تھے جہاں سے تازہ خیال گھسنے کا شائبہ تھا‘‘ میں ماضی کا صیغہ شاہد ہے کہ سوچنا، حرکت کرنا ساٹھ برس پہلے کی بات ہے۔کھڑے پانی کو کائی سے بچانے کے لیے لوگ اکثر ایک کام کرتے ہیں وہ ڈنڈوں سے یا اس میں اتر کر ہاتھوں سے پانی کو پھاڑتے ہیں تاکہ پانی میں ہوا شامل ہو اور اس میں بد بو پیدا نہ ہو اور اس پر کائی نہ جم سکے۔کوڑھ مغزی اور رکا ہوا پانی،کائی اور چہرے پر داڑھی، ہوا اور تازہ خیال،بغیر تشبیہ کے ایک جیسے ہو گئے ہیں۔ اگرچہ معانی نظم کے لیے موزوں نہیں رہے۔یہ مضمرات ہر نظم میں ہوتے ہیں جو کئی بار تو نظم کو بالکل بگاڑ بھی دیتے ہیں اور کبھی اسے بہت اعلی کر دیتے ہیں۔
اسی نظم کو ایک اور طرح سے دیکھتے ہیں:کائی ضروری نہیں کہ ٹھہرے پانی میں ہو،یہ کسی بھی جگہ فرش،دیوار اور پتھر پر ہو سکتی ہے۔خالی سے مراد سوچ اور خیال سے تہی؛خالی الذہن۔چوںکہ یہ نظم ایک دوست کی مرگ کا نوحہ ہے اس لیے ہم کہ سکتے ہیں کہ ہم دوستی میں جمے رہے جس کے نتیجے میں ادھر ادھر حرکت نہیں کی۔ اور سوچنے کے دروازے بند کر دیے جس سے مفاد کی شرائط قائم ہوتی تھیں۔ دوستی کا یہ وقفہ ساٹھ برس کا ہے۔ یعنی کسی قسم کی سوچ کے بغیر ایک دوسرے کو قبول کر لیا تھا۔
علی اصغر عباس کی نظموں میں تازہ خیالی اور روز مرہ کے واقعات کی تمثالیں قاری کو جکڑ لیتی ہیں۔ دیکھے بھالے واقعات کی تصویروں اور ان کی تہ میں مخفی معانی میں ایک زبردست ہم آہنگی اور یک جانی پیدا ہوتی ہے جس تک پہنچ کر قاری از سرِ نو تخلیق کی مسرت سے ہم کنار ہوتا ہے۔
میں یہاں دو بنیادی اعتراضات کا جواب دینا چاہتا ہوںجو ناقد کسی وقت بھی کر سکتے ہیں۔ایک یہ اعتراض کہ شعری معنی کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیوںکہ اسے خالص صوت کے طور پر لیا جاتا ہے اور دوسرا یہ اعتراض کہ شاعری کے لیے جو واقعی اہمیت کا حامل ہے وہ ماحول یا فضا ہے۔یہ اعتراضات ایک جیسے ہیں لیکن ان کا کئی طرح سے بہتر جواب دیا جا سکتا ہے۔خالص صوت کے لیے یہ دلیل کہ شاعری اپنے اظہار و عمل میںایک طلسماتی چیز ہے اور ایسا طریقہ ہے کہ سطریںبغیر دلیل کے خوب صورت محسوس ہوتی ہیں۔وہ قرینہ جس سے آپ (کوئی توجیح جو لوگ استعمال کرکے فیصلہ کرتے ہیں)شاعری میںایک خاص قرینے سے برتے گئے الفاظ پر صرف ایک نظر ڈال کرفیصلہ کرتے ہیں کہ اسے مزید توجہ کی ضرورت ہے یا نہیں۔یہ بہت اہم ثبوت ہے اور باور کراتا ہے کہ شاعری کے طرزِ عمل کے ضمن میں کئی کرشمے ممکن ہیںلیکن یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ کرشمے کون سے ہیں۔اس لیے درج بالا مثالوں میں طریقِ کار اور تراکیب آزما کر،تفہیمی عمل کی وضاحت کی ہے
خالص صوت کو ماننے والوں کے گروہ کا ایک زمانہ تھاجب بچوں کو ہومر Homer کے مختلف حصے سنا کر ان کے تاثرات کے بارے میں پوچھا جاتا تھا۔بالکل اسی طرح جیسے ڈارون اپنے پودوں کے سامنے بین بجایا کرتا تھا۔اس طرح ایک تصفیہ کن شہادت جمع ہوجاتی تھی کہ نظم کے نفسِ مضمون کے بارے میں ایک غیر متعین تاثر اس کے پڑھنے والے کے مطالعے سے اخذ ہو سکتا ہے۔کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ اس بات کا موجودہ مسئلہ سے کیا تعلق ہے،یہی وہ مشکل مقام ہے(جہاں ایک پرانی بحث میں جان ڈالی جا سکتی ہے)جو تجربے کو مشکل بناتی ہے۔ایک طرف وہ شخص جو یونانی زبان نہیں جانتا ہے وہ اپنے لیے ہومر کو پڑھے،اس کا کوئی فائدہ نہیں۔کیوںکہ وہ یونانی کے الفاظ کا درست تلفظ بھی ادا نہیں کر سکتا(اگر وہ درست تلفظ ادا کر بھی لے تو جملوں کو درست تلفظ سے نہیں پڑھ پائے گا)،دوسری طرف اگر آپ اسے جملے کی درست ادائیگی سکھا بھی دیں تو اس بات کا یقینی ہونا ناممکن ہے کہ اسے آپ نے اپنی آواز کے اتار چڑھائو کے ساتھ مخصوص طرزِ احساس نہیں سکھایا ہے۔اس بات سے انکار بے سود ہے کہ محسوسات کا تبادلہ مختلف قسم کے جانوروں میں بھی غوں غاںسے ہو جاتا ہے۔کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ پہلے زباں خود وضاحتی علامت نگاری سے عبارت تھی،اس کی بنیاداحساسات کے تاثرات،جانوروں اور پرندوں کی آوازوں کی نقالی اور زبان کے اس استعمال پر تھی جو دلچسپی کے معاملات کی طرف اشارہ کرتے تھے۔کوئی نقالی کا عمل تھا یا کسی تکلیف دہ عمل کا اظہار تھاجیسے بچے کے لکھنا سیکھنے کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ذبان کا قدیم استعمال ہمیں شاعری کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتا ہے لیکن ذبان کا اس طرح کا استعمال نظم میں خالص صوت کے تعریف کنندہ کے لیے بے سود ہے کیوںکہ ایک خرخر بھی بیک وقت بہت بے ڈھب اور پر معنی ہے جسے حروفِ تہجی میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔ایک لفظ جو چیخ کر یا ہینک کر ادا کیا جا سکتا ہے اگر وہ لفظ کاغذ پر تحریر ہے تو ناصرف اس کے معنی معلوم کرنے پڑتے ہیں بلکہ اسکا سیاق بھی جاننا پڑتا ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ لفظ چیخ کر یا ہینک کر ادا کرنا ہے۔خالص صوت کے مداح یقینی طور پر اس بات کو تسلیم کریں گے کہ شاعر کے برتے گئے الفاظ سے پہلے واقف ہونا ضروری ہے پھر آپ ان کی اصوات کی تحسین کر سکیں گے،اسی بات کو تسلیم کرنے سے بہت فرق پڑتا ہے۔وہ یہ بات زیادہ رغبت سے اس لیے مانتے ہیںکہ وہ عموما قدرشناس باریک بیں نقاد ہوتے ہیں ؛حساسیت کی اعلی درجے کی بناوٹی نفاست کے حامل لوگ،جنھیںاپنی اس نفاست کی مختلف طریقوں سے حفاظت کرنا پڑتی ہے۔شراب کی پرکھ کرنے والا عموما حلق متاثر ہونے کے ڈر سے تھوڑی سی شراب چکھتا ہے۔میں یہاں یہی کہوں گا کہ باریک بیں ناقدین کو اپنی ذہانت کا استعمال اس طرح آذادی سے نہیں کرنا چاہیے۔اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ ان ماہرانہ عادات کو عام شرابی اور عام قاری پر بھی مسلط کیا جائے۔کچھ خاص علوم کے ماہرین شاعری میں طبقاتی احساس رکھتے ہیں اور کچھ ناقدین اس پر اصرار کرتے ہیں کہ شاعری ایک طلسمی شے ہے جس پر صرف ان کا منتر اثر کرتا ہے،یا شاعری نشوو نما پاتے پھول کی طرح ہے جس کا تجزیہ کرنا بے وقوفی ہے جیسے اسے جڑوں سے اکھاڑ کر ضائع کرنے کے مترادف ہے یا جیسے اسے کچل کر اس کے عطر کو روشنی میں لانے کا عمل ہو۔اس مقام پر ناقدین دو گروہوں میں تقسیم ہیں:ایک وہ جو پھول کا حسن دیکھ کر شانت ہوجاتے ہیں، دوسرے وہ ہیں جو پھول کو جڑ سے اکھاڑ لیتے ہیں۔میں خود اس دوسری قسم کے گروہ میں شامل ہوں کیوںکہ جس حسن کو بیان کرنا ممکن نہ ہو مجھے مضطرب کر دیتا ہے۔وہ وجوہ جن کے سبب کسی نظم کی سطر لطف دیتی ہے مجھے یقین ہے وہی وجوہ کسی بھی دوسری چیز کے لیے ہو سکتی ہیں۔کوئی بھی شخص ان وجوہ کا استدلال پیش کر سکتا ہے۔جب کہ یہ بات بھی درست ہے پھول کی جڑیں نہیں اکھاڑنی چاہییں، مجھے یہ بات قدر شناس ناقد کا احساسِ برتری محسوس ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ اپنی خواہش سے کرتا ہے وہ بھی جڑیں اکھاڑنے جیسا ہی عمل ہے:
آخری مثال پیش کرتا ہوں اور اجازت چاہتا ہوں :
چھوٹے سے اک کمرے میں
چارپائی پہ بوڑھا ہے
وقت ضعیفی اوڑھے لیٹا
تنہائی کی سرحد کھینچے
یاد کا چلہ کاٹ رہا ہے
دروازہ بھی
دستک کا امکان دبائے چپکا ہے
اجل سندیسہ
روشن دان میں
چڑیا کے انڈوں پر بیٹھا اونگھ رہا ہے!
ان سطروں میں بظاہر یوں نظر آتا ہے کہ ایک کمرے میں ایک بوڑھا موت کے انتظار میں ہے؛لیکن ایسی بات دور دور تک نہیں ہے۔ آخری سطروں پر غور کریں تو یہ بوڑھے کا مشاہدہ ہے کہ روشن دان میں جہاں چڑیا کا گھونسلا ہے اور جس میں وہ انڈے سینچ رہی ہے،اصل میں چڑیا نہیں بلکہ موت کا سندیسہ ہے۔ قبل از وقت بوڑھے کی سوچ بھی ہو سکتی ہے کہ انڈوں سے بچے صرف مرنے کے لیے نکلیں گے۔ یہاں روشن دان پر ممکن ہے زیادہ جگہ نہ ہو، بچے نکلیں اور نیچے گر کر موت کا شکار ہو جائیں۔ ان تین سطروں سے پہلے کی سطریں صرف بوڑھے کی حالت اور کیفیت ظاہر کرتی ہیں، ایسا بوڑھا جس کے پاس کوئی نہیں آنے والا، جو یادوں کے بل پر زندہ ہے، یا جسے موت کا انتظار ہے،یہ شاعر کے الفاظ کے مطابق مفہوم ہے لیکن آخری تین سطروں میں،بوڑھے کو اپنی موت کے سندیسے کی بجائے، چڑیا کے بچوں کی موت دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہ اس نظم کے مضمرات میں سے ایک ہے، یا پھر یوں ہو سکتا ہے کہ بوڑھے کے اپنے بیٹے بیٹیاں اجل کا شکار ہو چکے ہیں اس لیے وہ اکیلا ہے اور اسے چڑیا بھی اپنے جیسی نظر آنے لگتی ہے جس کے بچے چڑیا سے پہلے موت کا شکار ہوں گے، اب یہاں اجل کا سندیسہ چڑیا وقت اور بوڑھا ایک جیسے ہو گئے ہیں۔
کسی بھی نظم کی تفہیم کے عقب میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ علی اصغر عباس چوںکہ بہت متحرک اور شعری طور پر بہت زود گو ہے اس لیے اس کی نظموں کے عقب میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جسے عام قاری نہیں دیکھ سکتا ہے۔ ایک وجہ اور بھی ہے کہ نظموں کو سخت عروضی جکڑ بندی کا شکار نہیں کرتا جس کی وجہ سے نظمیں سہولت کے ساتھ اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔آخر میں اس دعا کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں خدا وند متعال،اپنے حبیب و اہلبیت کے صدقے اس کی فکر کو مذید رسوخ دے آمین۔

Related posts

Leave a Comment