سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد امتیاز

رشید احمد صدیقی نے سر سید کو ہند اسلامی تہذیب کی اعلیٰ روایات کا ساختہ و پرداختہ کہا ہے۔اس لحاظ سے اگردیکھا جائے تو  یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدید ہندوستان کی تہذیب و تعمیر میں جو نام سب سے پہلے ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ سر سید احمد خاں ہی کا ہے۔انہوں نے اپنے افکار و خیالات سے جس طرح تہذیبی پسماند گی، فکری جمود اور علمی و ادبی تنگ نظری کا خاتمہ کیا تھا وہ انہیں یقینا اپنے زمانے کا ایک ماہرِ تعلیم، مصلحِ قوم اور ایک بڑا ادیب ثابت کرتا ہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع اور طویل عرصے پر محیط ہے کہ ان سب کو ایک مختصر سے مضمون میں سمیٹنا  مشکل ہے۔تاہم ان پر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سر سید نے جس طرح علمی و ادبی موضوعات  پر قلم اٹھایا ہے وہ  قابلِ قدر ہی نہیں  دستاویزی حیثیت کا  حامل بھی ہے۔

سر سید نے ’تہذیب الاخلاق‘کی اشاعت سے بہت پہلے یعنی 1847 میں اردو زبان کے حوالے سے دو مضامین قلم بند کیے تھے، ایک ’اردو زبان اور اس کا ارتقا‘ اور دوسرا ’اردو زبان اور اس کا بیان‘۔مذکورہ دونوں مضامین میں انہوں نے تحقیقی و تنقیدی نقطۂ نظر سے اردو زبان اور اس کے اسالیب  سے بحث کی ہے۔ اس کے علاوہ اردو میں غیر زبان کے الفاظ کے استعمال پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے۔ جب ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘(پہلی اشاعت 30/ مارچ،1866) اور ’تہذیب الاخلاق‘(پہلی اشاعت24/ دسمبر1870 کی اشاعت ہوئی تو سر سید نے کئی ادبی اور تمثیلی مضامین لکھے۔آدم کی سرگزشت،امید کی خوشی،گزرا ہوا زمانہ، ہماری زبان،تعصب،انسان وحیوان،علاماتِ قرأت، سرابِ حیات،بحث و تکرار،موجودہ تعلیم،نئی تہذیب،کاہلی، اپنی مدد آپ،تعلیم و تربیت، سمجھ، وغیرہ ایسے مضامین ہیں جن میں انشاپردازی کا ایک نیا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ گزرا ہوا زمانہ  اور امید کی خوشی  میں جو اندازِ اسلوب  سر سید نے اختیار کیا تھا اسی سے بعد کے زمانے میں فکشن کی زبان کے لیے راہ ہموار ہوئی۔امید کی خوشی کا یہ اقتباس  جس میں موجودہ فکشن کی زبان کا انداز موجود ہے:

’دیکھو وہ بڈھا آنکھوں سے اندھا اپنے گھر میں بیٹھا روتا ہے۔اس کا پیارا بیٹا بھیڑوں کے ریوڑ میں غائب ہو گیا ہے۔وہ اس کو ڈھونڈتا ہے پر وہ اس کو نہیں ملتا، مایوس ہے، پر امید نہیں ٹوٹی۔لہو بھرا، دانتوں پھٹا کُرتا دیکھتا ہے پر ملنے سے نا امید نہیں۔فاقوں سے خشک ہے۔غم سے زار نزار ہے۔روتے روتے آنکھیں سفید ہو گئیں ہیں۔کوئی خوشی اس کے ساتھ نہیں ہے مگر صرف ایک امید ہے  جس نے اس کو وصل کی امید میں زندہ اور اس خیال میں خوش رکھا ہے۔‘

علاماتِ قرأت ایک طویل مضمون ہے جس میں سر سید نے اُن علامات کی اہمیت بتائی ہے جسے انگریزی میں Punctuation کہتے ہیں۔ اس مضمون میں زبان کی ادائیگی اور انگریزی علامات کے استعمال کی طرف خصوصی توجہ دلائی گئی  ہے۔آدم کی سرگزشت میں یوں تو مذہبی مباحث ہیں لیکن اس میں سر سید کے تنقیدی شعور کی جھلک بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔  سرابِ حیات میں زندگی کے فلسفیانہ مباحث کو محاکاتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔محبت میں مکالمے کے انداز کو اور بحث و تکرار  میں  پیکر تراشی اور ادبی و لسانی امتیازات کو پیش کیا گیا ہے۔صحافت کے ذیل میں جو مضامین  سر سید نے لکھے ہیں وہ بھی بے حد دور رس ثابت ہوئے ہیں۔  ان تمام مضامین سے مستقبل کے علمی و ادبی نثر کے لیے راہ ہموار ہوئے۔   سر سید، محمد حسین آزاد کے ’انجمن پنجاب‘ کے مشاعرے میں پڑھی گئی نظموں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہیں ایک خط میں لکھتے ہیں کہ’میری نہایت قدیم تمنا اس مجلسِ مشاعرہ سے بر آئی ہے۔میں مدت سے چاہتا تھا کہ ہمارے شعرأ نیچر کے حالات کے بیان پر متوجہ ہوں۔۔۔اپنے کلام کو اور زیادہ نیچر کی طرف مائل کرو جس قدر کلام نیچر کی طرف مائل ہوگا اتنا ہی مزہ دے گا۔‘حالی بھی  سر سید سے Inspire ہو کر ’مقدمہ شعر و شاعری‘ میں نیچرل شاعری، بے قافیہ شاعری  اور شعری ہیئتوں میں تبدیلی کی طرف توجہ دلائی ہے۔اس طرح سر سید نے اپنے مضامین کے ذریعے مقصدیت اور حقیقت پسندی کو پیش کرنے کی کوشش کی۔ ان سے قبل کی نثرمیں یہ خوبیاں موجود نہیں تھیں۔انہوں نے اپنے مضامین میں جدید علم کی روشنی میں آزاد خیالی اور وسیع النظری کو فروغ دیا اور ایسی انشا پردازی کی طرح ڈالی جس میں سلاست،روانی اور سادگی کے ساتھ ساتھ اثر انگیزی اورربط و تسلسل بھی  تھا۔  

1857 کی جنگِ آزادی نے ہندوستانیوں کو ایک نئے اندازِ فکر سے روشناس کرایا تھا۔ اس بیداری میں اُن ادبی سرگرمیوں کا بھی دخل تھا جسے سر سید نے ایک تحریک کی صورت دینے کی کوشش کی تھی۔ یہ وہ عہد تھا جب مغربی علوم کے خلاف پورے ہندوستان میں مخالفت جاری تھی۔ لیکن سر سید نے مغربی تعلیم کی مخالفت کے بجائے اس کے ساتھ چلنے کو زیادہ اہمیت دی تاکہ مسلمانوں کو حکومت اور انتظامیہ کی نمائندگی بھی حاصل ہو سکے۔یہ پہلا موقع تھا جب سر سید نے دو مختلف تہذیبوں کے انضمام پر زور دیا تھا۔اس کوشش میں سر سید نے خود نثر کی جن صورتوں کو ابھارا تھا وہ تصنع سے پاک،سلیس اور سادہ انداز و اسلوب کا تھا۔شبلی نے اپنے ایک مقالے میں سر سید کی   علمی وادبی   حیثیت  پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ آجملک میں بڑے بڑے انشا پرداز موجود ہیں جو اپنے مخصوص میدان میں حکمران کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان میں کوئی ایک شخص ایسا نہیں جو سر سید کے بار احسان سے گردن اٹھا سکے، بعض تو ان کے دامن تربیت میں پلے ہیں، بعضوں نے دور سے فیض اٹھایا ہے اور بعض نے مدعیانہ اپنا الگ راستہ نکالا، تاہم سر سید کی فیض پذیری سے کوئی بھی آزادنہ رہ سکا۔

سر سید کی ابتدائی زندگی مختلف تحریکوں کی گود میں پھلی پھولی تھی۔ ان تحریکوں نے ان کی ذہنی پرورش میں خاصا اہم رول ادا کیا تھا۔ابتداء میں سر سید تصنیف و تالیف میں دلچسپی لیتے رہے۔ لہذا 1841 سے لیکر 1857 تک ان کی پندرہ کتابیں مختلف موضوعات پر (خصوصاً تاریخی) منظر عام پر آچکی تھیں اور سر سید ایک عالم، ادیب، سیاست داں اور مفکر کی حیثیت سے متعارف ہو چکے تھے۔ جب سر سید کا قیام دلی میں ہوا توان کی فکری اور عملی زندگی میں تبدیلی رو نما ہوئی اور علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو ان کے ذہن میں پرورش پا رہا تھا اپنے اظہار کو مچلنے لگا۔ انگریزوں سے بغاوت کا الزام مسلمانوں کے سر تھا۔  جس کے رد عمل میں مسلمانوں نے انگریز دشمنی کو اپنا مذہبی فریضہ بنا لیا تھا۔اس تصادم اور کشمکش نے سر سید کے ذہن کو ماضی کے تحفظ اور مستقبل کے امکانات کی طرف موڑ دیا۔چنانچہ سر سید جو پہلے سید احمد شہید کے نظر یے کے قا ئل تھے، ان کے مخالف ہو گئے اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف اسی کے  ہتھیار کو حربہ بنا لیا۔ سر سید اس خطرے سے بھی آگاہ تھے کہ انگریز نہ صرف مسلمانوں سے ان کی حکومت چھین لینا چاہتے ہیں بلکہ انہیں مذہبی عقائد سے بھی دور کردینا چاہتے ہیں۔چنانچہ 1860 کے بعد سر سید نے دو اہم کام انجام دیے۔ایک مدرسہ غازی پور اوردوسرا سائنٹفک سوسائٹی کا قیام۔ مدرسے کے قیام کا مقصد بالغوں کو نئی تعلیم سے متعارف کرانا تھا۔ انگریزی تعلیم چونکہ مذہب کے خلاف تصور کی جا رہی تھی اس لئے سو سائٹی نے نئے علوم کو اردو زبان میں منتقل کرنا شروع کیا۔مسلمانوں کی نشا ۃالثانیہ  کے لئے سر سید کا یہ اقدام بڑا کا ر آمد ثابت ہوا اور مختصرسے عرصے میں ہی مغربی علموم و فنون کی چالیس کتابیں ترجمہ ہو کر منظر عام پر آ گئیں۔ ان میں اسکاٹ برلن کا ”علم فلاحت“ مِل  کی ”سیاحت مدن“ٹامسن کا علم آب و ہوا“ ہیرس کا”رسالہ برقی“  وغیرہ اہم ہیں۔

’سائنٹفک سوسائٹی‘ سر سید کی فکر کا پہلا عملی نمونہ تھا۔جس نے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے ذہن کو متحرک کیا۔سوسائٹی نے حصولِ مقصد  کے لئے ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ اخبار کا اجرا کیا۔ جس نے مسلمانوں میں سیاسی اور ادبی شعور کو بیدار کرنے میں خاصا اہم کردار ادا کیا۔ 1867 میں سر سید کے ذہن میں ’ورنیکلر یونیورسٹی‘ قائم کرنے کا بھی خیال آیا۔وہ اس یونیورسٹی کی بنیاد ایسے طرز پر رکھنا چاہتے تھے جس میں انگریزی کے ساتھ ساتھ مشرقی علوم کا درس بھی دیا جا سکے۔اس سلسلے میں انہوں نے گورنر جنرل کو اپنی عرض داشت بھی بھیجی،جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایک ایسی یونیورسٹی قائم کی جائے جس میں اُن تمام علوم کو جن کا امتحان کلکتہ یونیورسٹی انگریزی میں لیتی ہے، دیسی زبان یعنی اردو میں لے اور اس یونیورسٹی سے فراغت حاصل کرنے والے طلبا کو یکساں معیار کی سند عطا کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرسید نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ انگریزی سے اردو زبان میں تراجم کا کام ’سائنٹفک سوسائٹی‘ کے سپرد کر دیا جائے۔ لیکن سر سید کی یہ تجویز کامیاب نہ ہو سکی۔کیوں کہ تراجم کے لیے صرف یونیورسٹی کی نصابی کتابوں کی اجازت دی گئی جبکہ سرسید علمی کتابوں کا ترجمہ بھی چاہتے تھے۔دوسری طرف ’ورنیکلر یونیورسٹی‘ کے قیام کے لیے کسی جگہ کا تعین نہیں ہو سکا تھا۔ایک وجہ یہ بھی تھی کہ’سائنٹفک سوسائٹی‘ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے قدامت پسند طبقوں کے درمیان یہ سوسائٹی کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی تھی۔لہٰذا اس کے خلاف بھی رد عمل شروع ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سررشتۂ تعلیم، پنجاب نے یونیورسٹی کے قیام کے لیے لاہور اور تراجم کے لیے دلی کو منتخب کیا۔اس فیصلے پر سرسید نے محسوس کر لیا کہ ان کے مقصد کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ سرسید کی دلچسپی اس معاملے میں ختم ہو گئی۔

لاہور میں ’ورنیکلر یونیورسٹی‘ کے قیام کے بعد جب اس کی شہرت بڑھی توہندو پریس والوں کو یہ بات کھلنے لگی اور وہ اردو زبان کی مخالفت پر اتر آئے۔ جب مخالفت کی لہر تیز ہو گئی تو سرسید نے محسوس کیا کہ اب ان دو قوموں کا ساتھ ساتھ چلنا مشکل ہے۔سرسید جو اب تک ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں تھے،کھل کر مسلمانوں اور اردو زبان کے تحفظ پر زور دینے لگے۔1869میں جب سرسید نے لندن کا سفر کیا تو وہاں کی طرز زندگی اور مغربی طرز تعلیم نے انہیں بہت متاثر کیا۔جس سے ان کی فکر میں نئی تبدیلی آئی۔لندن میں ہی انہوں نے ولیم میورکی کتاب”لائف آف محمدؐ“ کا مدلل جواب ”خطباتِ احمدیہ“ لکھ کر دیا۔سر سید کا قیام جب لندن میں تھا، اسی درمیان  ان کے ذہن میں کیمبرج کے طرز پر ہندوستان میں ایک محمڈن یونیورسٹی قائم کرنے کا خیال آیا۔ اس کے علاوہ  وہاں سے نکلنے والے اخبار ’ٹٹلر‘ اور ’اسپکٹیٹر“ سے بھی وہ متاثر ہوئے، جس نے وہاں کی معاشرتی ناہمواریوں کو دور کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ ان دونوں اخبارات کے طرز پرانہوں نے ہندوستان میں بھی اخبار نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ ہندوستان واپس آنے کے بعدسرسید نے تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے اور اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے علی گڑھ میں ”مدرسۃ العلوم“ کی بنیاد ڈالی اور اخبار ”تہذیب الاخلاق“ جاری کیا۔

سرسید تحریک کثیرالمقاصد پر مبنی ہمہ جہت تحریک تھی۔سیاسی نقطۂ نظر سے اس تحریک نے تہذیبی، معاشرتی اور سیاسی نا ہمواریوں کو دور کرنے کی سعی کی۔ مذہبی نقطہ نظر سے اس نے مغربی علوم کی روشنی میں عقائد کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ ادبی زاویے سے اس تحریک نے اردو زبان کے فروغ میں گراں قدر کردار ادا کیا۔سر سید کی اس تحریک نے ادباء کی ایک ایسی جماعت بھی پیداکی جن میں بیشتر انجمن کی حیثیت رکھتے تھے۔لیکن اس کے باوجود سر سید تحریک کی مخالفت شروع ہوگئی۔مولوی علی بخش شررنے ’تہذیب الاخلاق‘ میں شائع ہونے والے ما بعد الطبیعاتی مضامین کی کھل کر مخالفت کی۔ سید امداد علی نے تہذیب الاخلاق کی مخالفت میں ’رسالہ امداد الآفاق‘ جاری کیا اور سر سید کے خلاف مذہبی نوعیت کے مضامین لکھے۔ محمد قاسم نانوتوی نے ’مدرسہ دیو بند‘ کے پلیٹ فارم سے سر سید کی مغرب پرستی کی مخالفت کی۔ان کے علاوہ اکبر الہ آبادی  نے بھی اپنی نظموں، منشی سجاد حسین نے ”اودھ پنچ“ اور پنڈت رتن ناتھ سر شار نے اپنی تحریر، کے ذریعے سرسید کی مخالفت کی۔

سر سید تحریک کو پروان چڑھانے میں ان کے رفقاء نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ان میں نواب سید مہدی علی محسن الملک کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔انہوں نے مذہبی مباحث کو سائنسی علوم کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی۔ مولوی چراغ علی نے سرسید کے افکار کو عام کرنے کے لئے عربی، فارسی، انگریزی اورفرانسیسی زبان کا سہارا لیااور سر سید تحریک کے افکار و خیالا ت کی تبلیغ کی۔ نواب وقارحسین وقار الملک نے سر سید کے تصور کو اپنے مضامین میں پیش کیا۔انہوں نے مسلم یونیورسٹی کے قیام کے لئے سرسید کے دوش بدوش جدو جہد کی۔ سر سید تحریک کے سر گرم رفقاء  میں الطاف حسین حالی کو بھی گراں قدر حیثیت حاصل ہے۔ جدید شاعری اور اردو تنقید حالی ہی کی رہین منت ہے۔ ان کی شاعری اور تنقید سر سید سے ہی متاثر ہو کر وجود میں آئی۔انہوں نے سر سید کی سوانح ”حیاتِ جاوید“ کے نام سے لکھی۔علامہ شبلی نعمانی بھی  سر سید کے رفقاء میں شامل تھے۔ انہوں نے سر سید کے فکری زاویے کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔شبلی کی بیشتر تصانیف سر سید تحریک کی روح سے معمور ہیں۔ مولوی نذیر احمد بھی سر سید تحریک کے سر گرم رکن تھے۔ انہوں نے بھی سر سید  تحریک کے اثرات کو علی گڑھ سے نکال کر دور دراز علاقے تک پہنچا یا۔ ان کے علاوہ مولوی ذکاء اللہ، وحیدالدین سلیم اور عبدالحلیم شرربھی سرسید کے رفیق کار میں شامل تھے۔تحریک کو مثبت راہ دکھانے میں ان لوگوں نے بھی گراں قدر کام انجام دیا۔

سر سید تحریک نے مغربی علوم کی مخالفت کے بجائے اس کے ساتھ چلتے ہوئے صداقت کا اظہار کیا۔لہذا سوانح نگاری اور سیرت نگا ری پر اس کے گہرے نقش مرتب ہوئے۔حیات جاوید، حیات سعدی، سیرۃالنبی،المامون، الفاروق، الغزالی اور سوانح مولانا روم جیسی شاہکا ر تخلیقات، سر سید کی ادبی تحریک ہی کی دین ہیں۔ مضمون نگاری کی صنف بھی سر سید کی تحریک کی ہی پیدا وار ہے۔ سر سید تحریک ایک فکری تحریک تھی۔ اس تحریک نے روح، جسم،دل اور دماغ کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ سر سید تحریک کا ہی عطیہ ہے کہ فکری سطح پر مشرق و مغرب کے علوم کا انضمام ہو سکا۔لہذا سر سید  نے اپنی ادبی خدمات کے ذریعے ماضی،حال اور مستقبل کو ایک دھاگے میں پرونے کا کام انجام دیا  جس کے اثرات آج بھی ہمارے ادب میں روشن ہیں۔

Related posts

Leave a Comment