سر سید احمد خان ۔۔۔ آزادیٔ رائے​

آزادیٔ رائے​

ہم اپنے اس آرٹیکل کو ایک بڑے لایق اور قابل زمانۂ حال کے فیلسوف کی تحریر سے اخذ کرتے ہیں۔ رائے کی آزادی ایک ایسی چیز ہے کہ ہر ایک انسان اس پر پورا پورا حق رکھتا ہے۔ فرض کرو کہ تمام آدمی بجز ایک شخص کے کسی بات پر متفق الرائے ہیں مگر صرف وہی ایک شخص انکے بر خلاف رائے رکھتا ہے تو ان آدمیوں کو اس ایک شخص کی رائے کو غلط ٹھہرانے کیلیئے اس سے زیادہ کچھ استحقاق نہیں ہے جتنا کہ اس ایک شخص کو ان تمام آدمیوں کی رائے غلط ثابت کرنے کا (اگر وہ کر سکے) استحقاق حاصل ہے۔ کوئی وجہ اس بات کی نہیں ہے کہ پانچ آدمیوں کو بمقابلہ پانچ آدمیوں کی رایوں کو غلط ٹھہرانے کا استحقاق ہو اور ایک آدمی کو بمقابل نو آدمیوں کے یہ استحقاق نہ ہو۔ رائے کی غلطی آدمیوں کی تعداد کی کمی بیشی پر منحصر نہیں ہے بلکہ قوتِ استدلال پر منحصر ہے۔ جیسے کہ یہ بات ممکن ہے کہ نو آدمیوں کی رائے بمقابلہ ایک شخص کے صحیح ہو ویسے ہی یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص کی رائے بمقابل نو کے صحیح ہو۔

رایوں کا بند رہنا خواہ بسبب کسی مذہبی خوف کے اور خواہ بسبب اندیشہ برادری و قوم کے اور خواہ بدنامی کے ڈر سے اور یا گورنمنٹ کے ظلم سے نہایت ہی بری چیز ہے۔ اگر رائے اس قسم کی کوئی چیز ہوتی جسکی قدر و قیمت صرف اس رائے والے کی ذات ہی سے متعلق اور اسی میں محصور ہوتی تو رایوں کے بند رہنے سے ایک خاص شخص کا یا معدودے چند کا نقصان متصور ہوتا مگر رایوں کے بند رہنے سے تمام انسانوں کی حق تلفی ہوتی ہے اور کل انسانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور نہ صرف موجودہ انسانوں کو بلکہ ان کو بھی جو آیندہ پیدا ہونگے۔

اگرچہ رسم و رواج بھی اسکے بر خلاف رایوں کے اظہار کیلیئے ایک بہت قوی مزاحم کار گنا جاتا ہے لیکن مذہبی خیالات، مخالفِ مذہب رائے کے اظہار اور مشتہر ہونے کے لئے نہایت اقویٰ مزاحم کار ہوتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ اس مخالف رائے کا اظہار ہونا انکو نا پسند ہوا ہے بلکہ اسی کے ساتھ جوشِ مذہبی امنڈ آتا ہے اور عقل کو سلیم نہیں رکھتا۔ اور اس حالت میں ان سے ایسے افعال و اقوال سر زد ہوتے ہیں جو انہیں کے مذہب کو جس کے وہ طرفدار ہیں مضرت پہنچاتے ہیں۔ وہ خود اس بات کے باعث ہوتے ہیں کہ مخالفوں کے اعتراضات لا معلوم رہیں۔ وہ خود اس بات کے باعث ہوتے ہیں کہ بسبب پوشیدہ رہنے ان اعتراضوں کے انہیں کے مذہب کے لوگ ان کے حل پر متوجہ نہ ہوں اور مخالفوں کے اعتراض بلا تحقیق کئے اور بلا دفعہ کئے باقی رہ جائیں۔ وہ خود اس بات کے باعث ہوتے ہیں کہ انکی آیندہ نسلیں بسبب نا تحقیق باقی رہ جانے ان اعتراضوں کے، جس وقت ان اعتراضوں سے واقف ہوں اسی وقت مذہب سے منحرف ہو جاویں۔ وہ خود اس بات کا باعث ہوتے ہیں کہ وہ اپنی نادانی سے تمام دنیا پر گویا یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ اس مذہب کو جس کے وہ خود پیرو ہیں مخالفوں کے اعتراضوں سے نہایت ہی اندیشہ ہے۔ اگر انہی کے مذہب کا کوئی شخص بغیر حصول اغراضِ مذکورہ انکا پھیلانا چاہے تو خود اس کو معترض کی جگہ تصور کرتے ہیں اور اپنی نادانی سے دوست کو دشمن قرار دیتے ہیں۔

کیا عمدہ رائے اس فیلسوف کی ہے۔ "کسی رائے کے حامیوں کا اس رائے کے بر خلاف رائے کے مشتہر ہونے میں مزاحمت کرنے سے خود ان حامیوں کا بہ نسبت انکے مخالفوں کے زیادہ تر نقصان ہے اس لئے کہ اگر وہ رائے صحیح و درست ہو تو اسکی مزاحمت سے غلطی کے بدلے صحیح بات حاصل کرنے کا موقع انکے ہاتھ سے جاتا ہے اور اگر وہ غلط ہے تو اس بات کا موقع نہیں رہتا کہ غلطی اور صحت کے مقابلہ سے جو صحت کو زیادہ استحکام اور اسکی سچائی زیادہ تر دلوں پر مؤثر ہوتی ہے اور اسکی روشنی دلوں میں بیٹھ جاتی ہے، اس نتیجہ کو حاصل کریں جو فی الحقیقت نہایت عمدہ فائدہ ہے۔”

کچھ شبہ نہیں کہ عموماً مخالف اور موافق رایوں کا پھیلنا اور منتشر ہونا خواہ وہ دینی معاملہ سے علاقہ رکھتی ہوں یا دنیوی معاملہ سے نہایت عمدہ اور مفید ہے۔ دونوں قسم کی رایوں پر جدا جدا غور کرنے کا موقع ملتا ہے کہ ان میں سے کونسی بہتر ہے یا ان دونوں کی تائید ایسے دلائل سے ہوتی ہے جو جداگانہ ہر ایک کے مناسب ہیں۔ ہم کو اس بات کا کبھی یقینِ کامل نہیں ہو سکتا کہ جس رائے کی مزاحمت میں پابند رہنے میں ہم کوشش کرتے ہیں وہ غلط ہی ہے اور اگر یقین بھی ہو کہ وہ غلط ہے تو بھی اسکی مزاحمت اور اسکا انسداد برائی سے خالی نہیں۔

فرض کرو کہ جس رائے کا بند کرنا ہم چاہتے ہیں حقیقت میں وہ رائے صحیح و درست ہے اور جو لوگ اسکا انسداد چاہتے ہیں وہ اسکی درستی اور صحت سے منکر ہیں مگر غور کرنا چاہیئے کہ وہ لوگ یعنی اس رائے کے بند کرنے والے ایسے نہیں ہیں جن سے غلطی اور خطا ہونی ممکن نہ ہو تو انکو اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ اس خاص معاملہ کو تمام انسانوں کے لیئے خود فیصل کریں اور اور شخصوں کو اپنی رائے کام میں لانے سے محروم کر دیں۔ کسی مخالف رائے کی سماعت سے اس وجہ سے انکار کرنا کہ ہم کو اس کے غلط ہونے کا یقین ہے گویا یہ کہنا ہے کہ ہمارا یقین یقینِ کامل کا رتبہ رکھتا ہے اور اس پر بحث و گفتگو کی ممانعت کرنا انبیاء سے بھی بڑھ کر اپنا رتبہ ٹھہرانا ہے اور اپنے تئیں ایسا سمجھنا ہے کہ ہم سے سہو و خطا ہونا نا ممکن ہے۔

انسانوں کی سمجھ پر بڑا افسوس ہے کہ جس قدر وہ اپنے خیال اور قیاس میں اپنے سے اس مشہور مقولہ کی سند پر کہ الانسان مرکب میں الخطاء والنسیان سہو و خطا کا ہونا ممکن سمجھتے ہیں اس قدر اپنی رایوں اور اپنی باتوں کے عمل درآمد میں نہیں سمجھتے، انکی عملی باتوں سے اسکی قدر و منزلت نہایت ہی خفیف معلوم ہوتی ہے گو خیال و قیاس میں اسکی کیسی ہی بڑی قدر و منزلت سمجھتے ہوں۔ اگرچہ سب اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم سے سہو و خطا ہونی ممکن ہے مگر بہت ہی کم آدمی ایسے ہونگے جو اسکا خیال رکھنا اور ازروئے عمل کے بھی اسکی احتیاط کرنا ضرور سمجھتے ہیں اور عملی طور پر اس بات کو تسلیم کرتے ہوں کہ جس رائے کی صحت کا ان کو خوب یقین ہے شاید وہ اسی سہو و خطا کی مثال ہو جس کا ہونا وہ اپنے سے ممکن سمجھتے ہیں۔

جو لوگ کہ دولت یا منصب اور حکومت یا علم کے سبب غیر محدود تعظیم و ادب کے عادی ہوتے ہیں وہ تمام معاملات میں اپنی رایوں کے صحیح ہونے پر یقینِ کامل رکھتے ہیں اور اپنے سہو و خطا ہونے کا احتمال بھی نہیں کرتے اور جو لوگ ان سے کسی قدر زیادہ خوش نصیب ہیں یعنی وہ کبھی کبھی اپنی رایوں پر اعتراض اور حجت اور تکرار ہوتے ہوئے سنتے ہیں اور کچھ کچھ اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ جب غلطی پر ہوں تو متنبہ ہونے پر اس کو چھوڑ دیں اور درست بات کو مان لیں۔ اگرچہ ان کو اپنی ہر ایک رائے کی درستی پر یقینِ کامل تو نہیں ہوتا مگر ان رایوں کی درستی پر ضرور یقین ہوتا ہے جن کو وہ لوگ جو انکے ارد گرد رہتے ہیں یا ایسے لوگ جن کی بات کو وہ نہایت ادب و تعظیم کے قابل سمجھتے ہیں ان رایوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ جو شخص جسقدر اپنی ذاتی رائے پر اعتماد نہیں رکھتا وہ شخص اسی قدر دنیا کی رائے پر عموماً زیادہ تر اعتماد رکھتا ہے جس کو بعضی اصطلاحوں میں جمہور کی رائے یا جمہور کا مذہب کہا جاتا ہے۔

مگر یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک دنیا سے یا جمہور سے کیا مراد ہوتی ہے۔ ہر ایسے شخص کے نزدیک دنیا سے اور جمہور سے وہ چند اشخاص معدود مراد ہوتے ہیں جن سے وہ اعتقاد رکھتا ہے یا جن سے وہ ملتا جلتا ہے مثلاً اسکے دوستوں یا ہم رایوں کا فریق یا اسکی ذات برادری کے لوگ یا اس کے درجہ و رتبہ کے لوگ، پس اسکے نزدیک تمام دنیا اور جمہور کے معنی انہیں میں ختم ہو جاتے ہیں، اور اس لئے وہ شخص اس رائے کو دنیا کی یا جمہور کی رائے سمجھ کر اسکی درستی پر زیادہ تر یقین کرتا ہے۔ اس ہئیت مجموعی رائے کا جو اعتماد اور یقین اسکو زیادہ ہوتا ہے اور ذرا بھی اس میں لغزش نہیں آتی۔ اسکا سبب یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ اس بات سے واقف نہیں ہوتا کہ اسکے زمانہ سے پہلے اور زمانوں کے اور ملکوں کے اور فرقوں کے اور مذہبوں کے لوگ اس میں کیا رائے رکھتے ہیں، اور اب بھی اور ملکوں اور فرقوں اور مذہبوں کے لوگ کیا رائے رکھتے ہیں۔ ایسے شخص کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ اس بات کی جواب دہی کو کہ در حقیقت وہ راہِ راست پر چلتا ہے اپنی فرضی دنیا یا جمہور کے ذمہ ڈالتا ہے۔ پس جو کچھ اسکی رائے یا اسکا حال ہو کچھ بھی اعتبار اور یقین کے لایق نہیں ہے۔ اس لئے کہ جن وجوہات سے وہ شخص بسبب مسلمان خاندان میں پیدا ہونے کے اس وقت بڑا مقدس مسلمان ہے، انہی وجوہات سے اگر وہ عیسائی خاندان یا ملک یا بت پرست خاندان یا ملک میں پیدا ہوتا تو وہ بھلا چنگا عیسائی یا بت پرست ہوتا۔ وہ مطلق اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ جسطرح کس خاص شخص کا خطا میں پڑنا ممکن ہے اسی طرح اسکی فرضی دنیا اور خیالی جمہور کی تو کیا حقیقت ہے زمانہ کے زمانہ کا اور اس سے بھی بہت بڑی دنیا کا خطا میں پڑنا ممکن ہے۔ تاریخ سے اور علومِ موجودہ سے بخوبی ظاہر ہے کہ ہر زمانہ میں ایسی ایسی رائیں قائم ہوئیں اور مسلّم قرار پائیں جو اسکے بعد کے زمانہ میں صرف غلط ہی نہیں بلکہ سراسر لغو و مہمل سمجھی گئیں اور یقیناً اس زمانہ میں بھی ایسی رائیں مروج ہونگی جو کسی آیندہ زمانہ میں اسی طرح مردود اور نا معقول ٹھہریں گی جیسے کہ بہت سی وہ رائیں جو اگلے زمانہ میں عام طور پر مروج تھیں اور اب مردود ہو گئی ہیں۔

اس تقریر پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ جو لوگ مخالف رائے کو غلط اور مضر سمجھ کر اسکی مزاحمت کرتے ہیں اس سے انکا مطلب اس بات کا دعویٰ کرنا کہ وہ غلطی سے آزاد و بری ہیں، نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے اس فرض کا ادا کرنا مقصود ہوتا ہے جو ان پر باوصف قابلِ سہو و خطا ہونے کے اپنے ایمان اور اپنے یقین کے مطابق عمل کرنے کا ہے۔ اگر لوگ اس وجہ سے اپنی رایوں کے موافق کاربند نہ ہوں کہ شاید وہ غلط ہوں تو کوئی شخص اپنا کوئی کام بھی نہیں کر سکتا۔ لوگوں کا یہ فرض ہے کہ حتی المقدور اپنی نہایت درست رائے قائم کریں اور بغور انکو قرار دیں اور جب انکی درستی کا بخوبی یقین ہو جاوے تو اسکے مخالف رایوں کے بند کرنے اور مزاحمت کرنے میں کوشش کریں۔ آدمیوں کو اپنی استعداد و قابلیت کو نہایت عمدہ طور سے برتنا چاہیئے۔ یقینِ کامل کسی امر میں نہیں ہو سکتا مگر ایسا یقین ہو سکتا ہے جو انسان کے مطلب کے لئے کافی ہو۔ انسان اپنی کاروائی کے لئے اپنی رائے کو درست و صحیح سمجھ سکتے ہیں اور ان کو ایسا ہی سمجھنا چاہیئے اور اس سے زیادہ اور کوئی بات اس صورت میں اختیار نہیں کرتے جبکہ وہ خراب آدمیوں کو ممانعت کرتے ہیں کہ ایسی رایوں کے شائع کرنے سے جو انکے نزدیک فاسد اور مضر ہیں لوگوں کو خراب یا بد اخلاق یا بد مذہب نہ کریں۔

مگر مخالف رائے کے بند کرنے میں صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ انہوں نے اپنے تئیں قابل سہو و خطا سمجھ کر اپنے ایمان اور اپنے یقین کے موافق عمل کیا ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ کیا جاتا ہے اس بات میں کہ ایک رائے کو اس وجہ سے صحیح سمجھا جاوے کہ اس پر اعتراض و حجت کرنے کا ہر طرح پر لوگوں کو موقع دیا گیا اور اسکی تردید نہ ہو سکی اور اس بات میں کہ ایک رائے کو اس وجہ سے مان لیا گیا کہ اسکی تردید کی کسی کو اجازت نہیں ہوئی، زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پس مخالف رایوں کی مزاحمت کرنے والے اپنی رائے کو اس وجہ سے صحیح نہیں سمجھتے کہ اسکی تردید نہیں ہو سکی بلکہ اس لیئے صحیح ٹھہراتے ہیں کہ اسکی تردید کی اجازت نہیں ہوئی۔ حالانکہ جس شرط سے ہم بطور جائز اپنی رائے کو عمل درآمد ہونے کے لئے درست قرار دے سکتے ہیں وہ صرف یہی ہے کہ لوگوں کو اس بات کی کامل آزادی ہو کہ وہ اس رائے کے برخلاف کہیں اور اس کو غلط ثابت کریں۔ اسکے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے کہ انسان جسکے قوائے عقلی اور قوائے کامل نہیں ہیں اپنے آپ کو راہِ راست پر ہونے کا یقین کر سکے۔ اہلِ مذاہب جو صرف اپنے معتقد فیہ کی پیروی ہی کو راہِ راست سمجھتے ہیں، جب تک کہ وہ بھی اس بات پر مباحثہ اور اظہار رائے کی اجازت نہ دیں کہ جس طرح پر انکا عمل درآمد اور چال چلن یا اعتقاد اور خیال ہے وہ صحیح طور سے انکے معتقد فیہ کی پیروی ہے یا نہیں، اس وقت تک وہ بھی اپنے آپ کو راہِ راست پر ہونے کا یقین نہیں کر سکتے۔

انسان کی پچھلی حالتوں کو موجودہ حالتوں سے مقابلہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں انسانوں کا یہی حال ہے کہ سو میں سے ایک شخص ہی اس قابل ہوتا ہے کہ دقیق معاملہ پر رائے دے اور نناوے شخص اس میں رائے دینے کی لیاقت نہیں رکھتے مگر اس ایک آدمی کی رائے کی عمدگی بھی صرف اضافی ہوتی ہے۔ اس لئے اگلے زمانوں کے لوگوں میں اکثر آدمی جو سمجھ بوجھ اور لیاقت میں مشہور تھے، ایسی رائیں رکھتے تھے کہ جنکی غلطی اب بخوبی روشن ہو گئی ہے۔ بہت سی ایسی باتیں انکو پسندیدہ اور انکے عمل درآمد تھیں جنکو اب کوئی بھی ٹھیک اور درست نہیں سمجھتا اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں میں ہمیشہ معقول اور پسندیدہ رایوں کا غلبہ رہتا ہے مگر اسکا سبب بجز انسان کی عقل و فہم کی ایک عمدہ صفت کے جو نہایت ہی پسندیدہ ہے اور کوئی نہیں اور وہ صفت یہ ہے کہ انسان کی غلطیاں اصلاح کی صلاحیت رکھتی ہیں یعنی انسان اپنی غلطیوں کو مباحثہ اور تجربہ کے ذریعہ سے درست کر لینے کی قابلیت رکھتا ہے۔ پس انسان کی رائے بتمامہ قوت اور قدر و منزلت کا حصر اس ایک بات پر ہے کہ جب وہ غلط ہو تو صحیح کی جا سکتی ہے مگر اس پر اعتماد اسی وقت کیا جا سکتا ہے جبکہ اسکے صحیح کرنے کے ذریعے ہمیشہ برتاؤ میں رکھے جاویں۔ خیال کرنا چاہئے کہ جس آدمی کی رائے حقیقت میں اعتماد کے قابل ہے اسکی وہ رائے اس قدر و منزلت کو کس وجہ سے پہنچی، اسی وجہ سے پہنچی ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنی طبیعت پر اس بات کو گوارا رکھا ہے کہ اسکی رائے پر نکتہ چینیاں کی جاویں اور اس نے اپنا طریقہ یہ ٹھہرایا ہے کہ اپنے مخالف کی رائے کو ٹھنڈے دل سے سنا اور اس میں جو کچھ درست اور واجب تھا اس سے مستفید ہونا اور جو کچھ اس میں غلط اور نا واجب تھا اس کو سمجھ لینا اور موقع پر اس غلطی سے اوروں کو بھی آگاہ کر دینا۔ ایسا شخص گویا اس بات کو عملی طور پر تسلیم کرتا ہے کہ جس طریقہ سے انسان کسی معاملہ کے مدارج کو جان سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اسکی بات ہر قسم کی رائے کے لوگوں کی گفتگو کو سنے اور جن جن طریقوں سے ہر سمجھ اور طریقہ اور طبیعت کے آدمی اس معاملہ پر نظر کریں ان سب طریقوں کو سوچے اور سمجھے، کسی دانا آدمی نے اپنی دانائی بجز اس طریقہ کے اور کسی طرح پر حاصل نہیں کی۔ انسان کی عقل و فہم کا خاصہ یہی ہے کہ وہ اس طور کے سوا کسی اور طور سے مہذب اور معقول ہو ہی نہیں سکتی اور صرف اس بات کی مستقل عادت کے سوا کہ اپنی رائے کو اوروں کی رایوں سے مقابلہ کر کے اسکی اصلاح و تکمیل کیا کرے، اور کوئی بات اس پر اعتماد کرنے کی وجہ متصور نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ اس صورت میں اس شخص نے لوگوں کی ان تمام باتوں کو جو اسکے بر خلاف کہہ سکتے تھے بخوبی سنا اور تما معترضوں کے سامنے اپنی رائے کو ڈالا اور بعوض اسکے کہ مشکلاتوں اور اعتراضوں کو چھپا دے، خود اسنے جستجو کی اور ہر طرف سے کو کچھ روشنی پہنچی اس کو بند نہیں کیا تو ایسا شخص البتہ اس بات کے خیال کرنے کا استحقاق رکھتا ہے کہ میری رائے ایسے شخص یا اشخاص سے جنہوں نے اپنی رائے اس طرح پر پختہ نہیں کیا، بہتر و فایق ہے۔

جس شخص کو اپنی رائے پر کسی قدر بھروسہ کرنے کی خواہش ہو یا یہ خواہش رکھتا ہو کہ عام لوگ بھی اس کو تسلیم کریں، اس کا طریقہ بجز اسکے اور کچھ نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کو عام مباحثہ اور ہر قسم کے لوگوں کو اعتراضوں کے لئے حاضر کرے۔ اگر نیوٹن صاحب کی حکمت اور ہیئت اور مسئلہ ثقل پر اعتراض اور حجت کرنے کی اجازت نہ ہوتی تو دنیا اسکی صحت اور صداقت پر ایسا پختہ یقین نہیں کر سکتی تھی جیسا کہ اب کرتی ہے۔ کیا کچھ مخالفت ہے جو لوگوں نے اس دانا حکیم کے ساتھ نہیں کی اور کونسی مذہبی لعن و طعن ہے جو اس سچے اور سچی رائے رکھنے والے حکیم کو نہیں دی گئی مگر غور کرنا چاہیئے کہ اسکا نتیجہ کیا ہوا، یہ ہوا کہ آج تمام دنیا کیا دانا اور کیا نادان، کیا حکیم اور کیا معتصب اہلِ مذہب، سب اسی کو تسلیم کرتے ہیں اور اسی کو سچ جانتے ہیں، اور مذہبی عقائد سے بھی زیادہ اسکی سچائی دلوں میں بیٹھی ہے۔ بغیر آزادیِ رائے کے کسی چیز کی سچائی، جہاں تک کہ اسکی سچائی دریافت ہونی ممکن ہے، دریافت نہیں ہو سکتی۔ جن اعتقادوں کو ہم نہایت جائز و درست سمجھتے ہیں انکے جواز اور درستی کی اور کوئی سند اور بنیاد بجز اسکے نہیں ہو سکتی کہ تمام دنیا کو اختیار دیا جاوے کہ وہ ان کو بے بنیاد ثابت کریں۔ اگر وہ لوگ ایسا قصد نہ کریں یا کریں اور کامیاب نہ ہوں تو بھی ہم ان پر یقینِ کامل رکھنے کے مجاز نہیں ہیں۔ البتہ ایسی اجازت دینے سے ہم نے ایک ایسا نہایت عمدہ ثبوت انکی صحت کا حاصل کیا ہے جو انسانوں کی عقل کی حالتِ موجودہ سے ممکن تھا کیونکہ ایسی حالت میں ہم نے کسی ایسی بات سے غفلت نہیں کی جس سے صحیح صحیح بات ہم تک نہ پہنچ سکتی ہو، اور اگر امر مذکورہ پر مباحثہ کی اجازت جاری رہے تو ہم امید کر سکتے ہیں کہ اگر کوئی بات اس سے بہتر اور سچ اور صحیح ہے تو وہ اس وقت ہم کو حاصل ہو جاویگی جبکہ انسانوں کی عقل و فہم اسکے دریافت کرنے کے قابل ہوگی اور اس اثناء میں ہم اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ ہم راستی اور صداقت کے اس قدر قریب پہنچ گئے ہیں جسقدر کہ ہمارے زمانے میں ممکن تھا۔ غرضکہ ایک خطاوار وجود جس کو انسان کہتے ہیں اگر کسی امر کی نسبت کسی قدر یقین حاصل کر سکتا ہے تو اسکا یہی طریقہ ہے جو بیان ہوا اور مسلمانی مذہب کا جو ایک مشہور مسئلہ ہے الحق یعلو و لا یعلی یہ اسکی ایک ادنٰی تفسیر ہے۔

مگر ایک بہت بڑا دھوکہ ہے جو انسانوں کو اور بعضی دفعہ نیک گورنمنٹوں کو بھی آزادیِ رائے کے بند کرنے پر مائل کرتا ہے اور وہ مسئلہ سود مندی کا ہے جس کو غلط اور جھوٹا نام مصلحتِ عام کا دیا گیا ہے وللہ در من قال برعکس نہند نام زنگی کافور، اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی رائے یا مسئلہ یا عقیدہ کی سچائی اور صحت پر بحث کرنے سے اس لئے ممانعت کی جاتی ہے کہ گو وہ فی نفسہ کیسا ہی ہو مگر اس سے عام لوگوں کا پابند رہنا نہایت مفید اور باعثِ صلاح و فلاح عام لوگوں کا ہے، اور فی زماننا ہذا ہندوستان میں اور خصوصاً مسلمانوں میں یہ رائے بکثرت رائج ہے بلکہ اس گناہ کے کام کو ایک نیک کام تصور کیا جاتا ہے۔ اس رائے کا نتیجہ یہ ہے کہ مباحثہ اور رایوں کی آزادی کا بند کرنا اس مسئلہ یا عقیدہ کی صحت اور سچائی پر منحصر نہیں ہے بلکہ زیادہ تر مفیدِ عام ہونے پر منحصر ہے مگر افسوس ہے کہ ایسی رائے رکھنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ وہی دعوٰی سابق یعنی اپنے آپ کو ناقابلِ سہو و خطا سمجھنے کا جس سے انہوں نے توبہ کی تھی پھر پھرا کر پھر قائم ہو جاتا ہے۔ صرف اتنا فرق ہوتا ہے کہ پہلے وہ دعوٰی ایک بات پر تھا اب وہی دعوٰی دوسری بات پر ہے۔ یعنی پہلے اس اصل مسئلہ یا عقیدہ کے سچ ہونے پر تھا اور اب اسکے مفیدِ عام ہونے پر ہے حالانکہ یہ بات بھی کہ وہ مسئلہ یا عقیدہ مفیدِ عام ہے اسی قدر بحث و مباحثہ کا محتاج ہے جس قدر کہ وہ اصل مسئلہ یا عقیدہ کا محتاج ہے۔

ایسی رائے رکھنے والے اس غلطی پر ایک اور دوسری غلطی یہ کرتے ہیں جبکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے صرف اسکی اصلیت اور سچائی پر بحث کی ممانعت کی ہے اسکے مفیدِ عام ہونے کی بحث پر ممانعت نہیں کی اور یہ نہیں سمجھتے کہ رائے کی صداقت خود اسکے مفیدِ عام ہونے کا ایک جزو ہے، ممکن نہیں کہ ہم کسی رائے کے مفید عام ہونے پر بغیر اسکی صحت اور سچائی ثابت کئے بحث کر سکیں گے۔ اگر ہم یہ بات جاننی چاہتے ہیں کہ فلاں بات لوگوں کے حق میں مفید ہے یا نہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس بات پر توجہ نہ کریں کہ آیا وہ بات سچ اور صحیح و درست بھی ہے یا نہیں۔ ادنٰی اور اعلٰی سب اس بات کو قبول کرینگے کہ کوئی رائے یا مسئلہ یا اعتقاد جو صداقت اور راستی کے بر خلاف ہے دراصل کسی کے لئے مفید نہیں ہو سکتا۔

یہ تمام مباحثہ جو ہم نے کیا ایسی صورت سے متعلق تھا کہ رائے مروجہ اور تسلیم شدہ کو ہم نے غلط اور اسکے بر خلاف رائے کو جس کا بند رکھنا لوگ چاہتے تھے، صحیح و درست فرض کیا تھا، اب اسکے خلاف شق کو اختیار کرتے ہیں یعنی یہ فرض کرتے ہیں کہ رائے مروجہ اور تسلیم شدہ صحیح ہے اور اسکے بر خلاف رائے جس کا بند کرنا چاہتے ہیں، غلط اور نادرست ہے اور اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اس غلط رائے کا بھی بند کرنا خالی برائی اور نقصان سے نہیں۔

ہر ایک شخص کی، گو اس کی رائے کیسی ہی زبردست اور مضبوط ہو اور وہ کیسی ہی مشکل اور نا رضامندی سے اپنی رائے کے غلط ہونے کے امکان کو تسلیم کرے، یہ بات خوب یاد رکھنی چاہئے کہ اگر اس رائے پر بخوبیِ تمام اور نہایت بیباکی سے بے دھڑک مباحثہ نہیں ہو سکتا تو وہ ایک مردہ اور مردار رائے قرار دی جائیگی، نہ ایک زندہ اور سچی حقیقت اور وہ کبھی ایسی حق اور سچی بات نہیں قرار پا سکتی جس کا اثر ہمیشہ لوگوں کی طبیعتوں پر رہے۔

گذشتہ اور حال کے زمانہ کی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعضی دفعہ ظالم گورنمنٹوں نے بھی نہایت سچی اور صحیح بات کی رواج پر کوشش کی۔ الا انکے ظلم نے اُس پر آزادی سے مباحثہ کی اجازت نہیں دی، اور بہت سی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ نیک اور تربیت یافتہ گورنمنٹ نے نہایت سچی اور صحیح بات کا رواج دینا چاہا اور لوگوں نے یا تو اس خیال سے کہ ہمارے مباحثہ اور دلائل کو اُس رائے میں کچھ مداخلت نہیں ہے یا کوئی التفات نہیں کرتا، از خود مباحثہ کو نہیں اٹھایا یا اپنے وہمی خوف سے یا اراکین گورنمنٹ کی بد مزاجی کے ڈر سے یا انکی خلاف رائے کے کوئی بات نہ کہنی مصلحتِ وقت سمجھ کر یا یہ خیال کر کر کہ گورنمنٹ کے یا کسی کے بر خلاف بحث کرنا خیر خواہی نہیں، مباحثہ کو ترک کر دیا تو اسکا نتیجہ بجز اسکے اور کچھ نہیں ہوا کہ اس تجویز نے کسی کے دلوں میں مطلق اثر نہیں کیا اور ایک مردہ رائے سے زیادہ اور کچھ رتبہ لوگوں کے دلوں میں نہیں پایا۔

یہ بات کہ سچی اور درست رائے بے مباحثہ و دلیل کے بھی طبیعتوں میں بیٹھ جاتی ہے اور گھر کر لیتی ہے، ایک خوش آیند مگر غلط آواز ہے۔ دنیا کو دیکھو کہ گروہ کے گروہ ایک دوسرے کی متناقص رائے پر جمے ہوئے ہیں اور وہ متناقص رائیں انکے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہیں، پھر کیا وہ دونوں متناقص رائیں سچی اور صحیح ہیں۔۔۔۔۔۔۔ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ بہت سی باتیں بے سمجھے اور بغیر دلیل کے اور بغیر مباحثہ کے لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتی ہیں مگر انکا صحیح اور درست ہونا ضرور نہیں۔

سچ میں کوئی ایسی اعجازی کرامات نہیں ہے کہ وہ از خود دلوں میں بیٹھ جاوے، اس میں جو کچھ کرامات ہے وہ صرف اسی قدر ہے کہ مباحثہ کا اس کو خوف نہیں۔ سچ رائے بھی اگر بلا دلیل و مباحثہ دل میں گھر کر لے تو وہ سچی رائے نہیں کہلاوے گی بلکہ تعصب اور جہل مرکب اسکا مناسب نام ہوگا۔ مگر ایسا طریقہ حق اور سچ بات کے قبول کرنے کا ایک ذی عقل مخلوق کے لئے جیسا کہ انسان ہے شایان نہیں اور نہ یہ طریقہ راستی و حق کے پہچاننے کا ہے بلکہ جو حق بات اس طرح پر قبول کی جاتی ہے وہ ایک خیالِ فاسد اور باطل ہے، اور جن باتوں کو حق فرض کر لیا ہے انکا اتفاقیہ قبول کر لینا ہے۔

نہایت سچ اور بالکل سچ تو یہ بات ہے کہ جس شخص نے جو رائے یا مذہب اختیار کیا ہے وہی شخص اسکا جوابدہ ہے۔ اس رائے کے موجد یا اس مذہب کے پیشوا اور معلم اور مجتہد کچھ اسکے ذمہ دار نہیں ہیں مگر مسلمانوں نے اس آفتاب سے بھی زیادہ روشن مسئلہ سے آنکھ بند کر لی ہے۔ اور رومن کیتھولک یعنی بت پرست عیسائیوں کا مسئلہ اختیار کیا ہے۔ رومن کیتھولک مذہب میں ان لوگوں کے جو اس مذہب پر ایمان رکھتے ہیں دو فرقے قرار دیئے گئے ہیں، ایک تو وہ جو اس مذہب کے مسائل کو بعد دلیل و ثبوت کے قبول کرنے کے مجاز ہیں اور دوسرے وہ جن کو صرف اعتماد اور بھروسہ یعنی تقلید سے ان کو قبول کر لینا چاہیئے۔ اسی قاعدہ کی پیروی سے مسلمانوں نے بھی اپنے مذہب میں دو فریق قائم کیے ہیں، ایک وہ جنہوں نے مسئلہ مسلّمہ کو بعد ثبوت و تحقیقات اور اقامت و دلیل تسلیم کیا ہے اور ان کا نام باختلاف درجات مجتہد مطلق اور مجتہد فی المذہب اور مرحج قرار دیا ہے۔ دوسرا وہ جن کو بے سمجھے بوجھے آنکھ بند کر کر انکی پیروی کرنی چاہیئے اور ان کا نام مقلد اور اس فعل کا نام تقلید قرار دیا ہے اور اس سبب سے مخالف رائے کی مزاحمت مسلمانوں میں بہت زیادہ پھیل گئی ہے اور اسکی نسبت ایک نہایت عمدہ مگر ابلہ فریب تقریر کرتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ تمام انسانوں کو ان تمام باتوں کا جاننا نہ ضرور ہے اور نہ ممکن ہے جن کو بڑے بڑے حکیم یا اہلِ معرفت اور عالمِ علوم دین جانتے اور سمجھتے ہیں اور نہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہر ایک عام آدمی ایک ذکی اور دانشمند مخالف کی تمام غلط بیانیوں کو جانے اور ان کو غلط ثابت کرے یا تردید کرنے اور غلط ثابت کرنے کے قابل ہو، بلکہ صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ انکے جواب دینے کے لائق ہمیشہ کوئی نہ کوئی موجود ہونگے جن کی بدولت مخالفت کی کوئی بات بھی بلا تردید باقی نہ رہی ہوگی بس سیدھی سادھی عقل کے آدمیوں کے لئے یہی کافی ہے کہ ان باتوں کی اصلیت سکھلا دی جاوے اور باقی وجوہات کی بابت وہ اوروں کی سند پر بھروسا کریں اور جبکہ وہ خود اس بات سے واقف ہیں کہ ہم ان تمام مشکلات کے رفع دفع کرنے کے واسطے کافی علم اور پوری لیاقت نہیں رکھتے ہیں تو اس بات کا یقین کر کر مطمئن ہو سکتے ہیں کہ جو مشکلات اور اعتراض برپا کئے گئے ہیں وہ لوگ ان سب کا جواب دے چکے ہیں یا آئندہ دیں گے جو بڑے بڑے عالم ہیں۔

اس تقریر کو تسلیم کرنے کے بعد بھی رائے کی آزادی اور مخالف رائے کی مزاحمت سے جو نقصان ہیں اس میں کچھ نقصان نہیں لازم آتا کیونکہ اس تقریر کے بموجب بھی یہ بات قرار پاتی ہے کہ آدمیوں کو اس بات کا معقول یقین ہونا چاہیئے کہ تمام اعتراضوں کا جواب حسبِ اطمینان دیا گیا ہے اور یہ یقین جب ہی ہو سکتا ہے جب کہ اس پر بحث و مباحثہ کرنے کی آزادی ہو اور مخالفوں کو اجازت ہو کہ تمام اپنی وجوہات کو جو اسکے مخالف رکھتے ہیں بیان کریں اور اس مسئلہ کو غلط ثابت کرنے میں کوئی کوشش باقی نہ چھوڑیں۔

اگر تقلید کی گرم بازاری کا جیسے کہ آج کل ہے اور آزادانہ مباحثہ کی مزاحمت و عدم موجودگی کا نقصان اور بد اثر درصورتیکہ تسلیم شدہ مسئلہ یا قراردادہ رائیں صحیح ہوں، اسی قدر ہوتا کہ اس مسئلہ یا ان رایوں کی وجوہات معلوم نہیں ہیں تو یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ گو وہ مزاحمت عقل و فہم کے حق میں مضر ہے مگر اخلاق کو تو اس سے کچھ مضرت نہیں پہنچتی اور نہ اس مسئلہ کی یا رایوں کی اس قدر و منزلت میں کہ ان سے نہایت عمدہ اثر لوگوں کی خصلتوں پر ہوتا ہے کچھ نقصان ہے۔ مگر یہ بات نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر نقصان ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مباحثہ اور آزادیِ رائے کی عدم موجودگی میں صرف مسئلہ یا رایوں کی وجوہات ہی کو لوگ نہیں بھول جاتے بلکہ اکثر اس مسئلہ یا رائے کے معنی اور مقصد کو بھی بھول جاتے ہیں۔ چنانچہ جن لفظوں میں وہ مسئلہ یا رائے بیان کی گئی ہے اس سے کسی رائے یا خیال کا قائم کرنا تک موقوف ہو جاتا ہے یا جو جو باتیں ان لفظوں سے ابتدا میں مراد رکھی گئی تھیں ان میں سے بہت تھوڑی ہی معلوم رہ جاتی اور بعوض اسکے کہ اس مسئلہ یا رائے کا اعتقاد ہر دم تر و تازہ اور زندہ یعنی موثر رہے اسکے صرف چند ادھورے کلمے حافظہ کی بدولت باقی رہ جاتے ہیں اور اسکی مراد اور معنی بھی کچھ باقی رہتے ہیں تو صرف انکا پوست ہی پوست باقی رہتا ہے اور مغز و اصلیت نابود ہو جاتی ہے۔ اب ذرا انصاف سے مسلمانوں کو اپنا حال دیکھنا چاہئے کہ تمام علوم، معقول و منقول، میں اسی مزاحمتِ رائے یا تقلید کی بدولت ان کا درحقیقت ایسا ہی حال ہو گیا ہے یا نہیں۔

اس زمانہ تک جس قدر کہ انسان کو تمام مذہبی عقائد اور اخلاقی امور اور علمی مسائل میں تجربہ ہوا ہے اس سے امر مذکورہ بالا کی صحت ثابت ہوتی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ کسی مذہب یا علم یا رائے کے موجد تھے انکے زمانہ میں اور انکے خاص مریدوں یا شاگردوں کے دلوں میں تو یہ عقائد یا مسائل طرح طرح کے معنیوں اور مرادوں اور خوبیوں سے بھر پور تھے اور اسکا سبب یہی تھا کہ ان میں اور انکے مخالف رائے والوں میں اس غرض سے بحث و حجت رہتی تھی کہ ایک کو دوسرے کے عقیدہ اور مسئلہ پر غلبہ اور فوقیت حاصل ہو مگر جب اس کو کامیابی ہوئی اور بہت لوگوں نے اس کو مان لیا اور بحث اور حجت بند ہوگئی، اسکی ترقی بھی ٹھہر گئی اور وہ اثر جو دلوں میں تھا اس میں بھی جان یعنی حرکت اور جنبش نہیں رہی، ایسی حالت میں خود اسکے حامیوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ مثل سابق کے اپنے مخالف کے مقابلہ پر آمادہ نہیں رہتے اور جیسے کہ اس عقیدہ یا مسئلہ کی پہلے حفاظت کرتے تھے ویسی اب نہیں کرتے بلکہ نہایت جھوٹے غرور اور بیجا استغناء سے سکون اختیار کرتے ہیں اور حتی الامکان اس عقیدہ اور مسئلہ کے بر خلاف کوئی دلیل نہیں سنتے اور اپنے گروہ کے لوگوں کو بھی کفر کے فتووں کے ڈراوے اور جہنم مین جانے کی جھوٹی دہشت دکھانے سے، سننے سے اور اس پر بحث کرنے سے جہاں تک ہو سکتا ہے باز رکھتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ کہیں علموں کی روشنی جو آفتاب کی روشنی کی طرح پھیلتی ہے اور اعتراضوں کی ہوا اگر وہ صحیح ہوں تو کیا انکے روکے سے رک سکتی ہے اور جب یہ نوبت پہنچ جاتی ہے تو اس عقیدے یا مسئلہ کا جن کو انکے پیشواؤں نے نہایت محنتوں سے قائم کیا تھا زوال شروع ہوتا ہے اس وقت تمام معلم اور مقدس لوگ جو اُس کمبخت زمانہ کے پیشوا گنے جاتے ہیں، اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ معتقدوں کے دلوں میں ان عقیدوں کا جن کو انہوں نے برائے نام قبول کیا ہے کچھ بھی اثر نہیں پاتے اور باوجودیکہ وہ ظاہر میں ان عقیدوں اور مسئلوں کو قبول کرتے ہیں مگر انکا ایسا اثر کہ انکے معتقدوں کا چال چلن اور اخلاق اور عادت و معاشرت بھی ان عقیدوں اور مسئلوں کے مطابق ہو مطلق نہیں پاتے مگر افسوس اور نہایت افسوس کہ وہ معلم اور مقدس لوگ اتنا خیال نہیں فرماتے کہ یہ حال جو ہوا ہے جس کی وہ شکایت کرتے ہیں انہی کی عنایت و مہربانی کا تو نتیجہ ہے۔ اب میں صاف کہتا ہوں اور نہایت بے دھڑک کہتا ہوں کہ یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اس زمانہ کے مسلمانوں کے حال کا ٹھیک ٹھیک آئینہ ہے۔

اب اس حالت کے برخلاف حالت کو خیال کرو یعنی جب کہ آزادی رائے کی قائم رہتی ہے جسکے ساتھ مباحثہ کا بھی قائم رہنا لازم و ملزوم ہوتا ہے اور ہر ایک حامی کسی عقیدہ یا علمی مسئلہ کی وجوہ کو قائم اور غالب رہنے پر بحث کرتا ہے تو اس وقت عام لوگ بھی اور سست عقیدہ رکھنے والے بھی اس بات کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم کس بات پر لڑ بھڑ رہے ہیں اور ہمارے عقیدہ اور مسئلہ میں اور دوسروں کے عقیدہ اور مسئلہ میں کیا تفاوت ہے اور ایسی حالت میں ہزاروں ایسے آدمی پائے جاویں گے جنہوں نے اس عقیدہ یا مسئلہ کے اصول کو بخوبی خیال کیا ہوگا اور ہر ڈھنگ و طریقہ سے اس کو خوب سمجھ لیا ہوگا اور اسکے عمدہ عمدہ پہلووں کو بخوبی جانچ اور تول لیا ہوگا اور انکے اخلاق اور انکی عادت اور خصلت پر اسکا ایسا پورا اثر ہوگا کہ جیسا کہ ایسے شخص کی طبیعت پر ہونا ممکن ہے جس میں وہ عقیدہ یا مسئلہ بخوبی رچ بس گیا ہو۔ مگر جبکہ وہ عقیدہ ایک موروثی اعتقاد ہو جاتا ہے اور لوگ باپ دادا یا استاد پیر کی رسم تبرک کے طور پر قبول کرتے ہیں تو وہ تصدیق قلبی نہیں ہوتی، طبیعت اس کو مردہ دلی سے قبول کرتی ہے اور اس لئے طبیعت کا میلان اس عقیدہ اور مسئلہ کے بھلا دینے پر ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ عقیدہ یا مسئلہ انسان کے باطن سے بے تعلق ہو جاتا ہے اور ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ جیسے اس زمانہ میں اکثر پیش ہوتے رہتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عقیدہ یا مسئلہ طبیعت کے باہر باہر رہتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ دل میں گھر کرے، باہر ہی باہر ایسے خراب اور کانٹے دار پوست کی مانند لپٹا ہوا ہے جس کے سبب وہ باتیں ظہور میں نہیں آتیں جو انسان کے عمدہ عمدہ اوصافِ درونی سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ اس سے اس قسم کی قوت ظاہر ہوتی ہے جیسے کانٹے دار ٹھور کے درخت کی باڑ سے ہوتی ہے کہ وہ نہ خود اس گھیری ہوئی زمین کو کچھ فائدہ دیتا ہے اور نہ اوروں کو گل پھول لیجا کر اس میں لگانے دیتا ہے اور بجز اسکے کہ دل میں زمین کو ہمیشہ خالی اور ویران اور بیکار پڑا رہنے دے اور کچھ نہیں کرتا۔

Related posts

Leave a Comment