فصلِ گل آئے زمانے ہو گئے
زخم شاخوں کے پرانے ہو گئے
خاک اُڑا کر رہ گئی موجِ صبا
دفن مٹی میں خزانے ہو گئے
کھڑکیوں میں پھول کھلتے تھے جہاں
وہ گلی کوچے فسانے ہو گئے
کچھ تو ہم پہلے ہی تھی آشفتہ سر
اور کچھ تیرے بہانے ہو گئے
لوٹ آئے تیر اپنی ہی طرف
گم خلاؤں میں نشانے ہو گئے
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ سُن کے میرے عشق کی روداد کو
سُن کے میرے عشق کی روداد کو لوگ بھولے قیس کو فرہاد کو اے نگاہِ یاس!... -
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو...