رشید آفرین ۔۔۔ زبانیں چپ رہیں گی سایۂ دیوار بولے گا

زبانیں چپ رہیں گی سایۂ دیوار بولے گا سکوت شب ہی انجانی سحر کے بھید کھولے گا نہیں معلوم قسمت کب ہمیں وہ دن دکھائے گی امیرِ شہر جب اپنا گریباں خود ٹٹولے گا یقیں آتا نہیں مسلم کا مسلم ہی عدو ہو گا عدو ایسا جو خود کو خونِ ناحق میں ڈبو لے گا شکاری ہر پرندے کو ہی رزق تیر کہتا ہے جو زر میں آئے گا اُڑنے کو اپنے پر بھی تولے گا جنھیں رغبت ہو طوفاں سے وہ دریا پار جائیں گے وہ ڈوبیں گے سرِ…

Read More

رشید آفرین ۔۔۔ دل کے جو بھی غلام رہتے ہیں

دل کے جو بھی غلام رہتے ہیں موت سے ہم کلام رہتے ہیں سر بکف راستی کے سب پیکر ظرف کے زیرِ دام رہتے ہیں خون پینا ہی جن کی خصلت ہو عمر بھر تشنہ کام رہتے ہیں چاہِ غم میں کبھی جو اُترا ہوں ہوش بالائے بام رہتے ہیں جگ میں زندہ ہیں وہ سدا جن کے تذکرے صبح و شام رہتے ہیں رہروانِ جنوں کی راہوں میں دیپ تو گام گام رہتے ہیں جو رہیں منسلک مشقت سے منتظر اُن کے کام رہتے ہیں دوسروں کے لیے ہیں…

Read More

نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔۔۔ رشید آفرین

شہرِ نبیؐ ہے منبعِ عرفانِ زندگی ہر پل جہاں پہ جاری ہے فیضانِ زندگی چاروں طرف ہے جلوئہ انوارِ ایزدی پیہم ہے ذرّے ذرّے پہ بارانِ زندگی مجھ بے نوا کو در پہ بلا کر حضورؐ نے لطف و کرم سے بھر دیا دامانِ زندگی طیبہ میں آ کے فکر و نظر کو ملی جلا پورا ہوا جو کب سے تھا ارمانِ زندگی خوش ہوں کہ دیدِ گنبدِ خضریٰ ہوئی نصیب کمتر تھا یوں بہت سر و سامانِ زندگی یثرب میں سانس لیتے ہی درد و الم مٹے ممکن کہاں…

Read More

رشید آفرین ۔۔۔ قدم قدم سے پیامِ نجات ملتا ہے

قدم قدم سے پیامِ نجات ملتا ہے ہمارے رُخ سے رُخِ واقعات ملتا ہے وہی ہوئے ہیں امینِ غمِ محبت بھی وہ لوگ جن کو غمِ کائنات ملتا ہے عبث تلاشِ سکونِ حیات ہے لوگو! ’’حیات کھو کے سکونِ حیات ملتا ہے‘‘ نہ ہو سکا ہے مرا کوئی بھی شریکِ سفر مجھے تو سایا ہی بس اپنے ساتھ ملتا ہے کریں جہاں میں جو تحقیق خونِ ناحق کی تو آدمی ہی پسِ واردات ملتا ہے ذرا گزر تو سہی بے ثبات عالم سے اِسی کے بعد مقامِ ثبات ملتا ہے…

Read More