رشید آفرین ۔۔۔ زبانیں چپ رہیں گی سایۂ دیوار بولے گا

زبانیں چپ رہیں گی سایۂ دیوار بولے گا
سکوت شب ہی انجانی سحر کے بھید کھولے گا

نہیں معلوم قسمت کب ہمیں وہ دن دکھائے گی
امیرِ شہر جب اپنا گریباں خود ٹٹولے گا

یقیں آتا نہیں مسلم کا مسلم ہی عدو ہو گا
عدو ایسا جو خود کو خونِ ناحق میں ڈبو لے گا

شکاری ہر پرندے کو ہی رزق تیر کہتا ہے
جو زر میں آئے گا اُڑنے کو اپنے پر بھی تولے گا

جنھیں رغبت ہو طوفاں سے وہ دریا پار جائیں گے
وہ ڈوبیں گے سرِ ساحل سفینہ جن کا ڈولے گا

عجب انداز سے بچھڑا تھا کل جو پھیر کر آنکھیں
گماں تھا چھوڑ کر سب کو وہ میرے ساتھ ہولے گا

بھلا پیتے ہوئے امرت وفا کا کب یہ سوچا تھا
مقدر ہی مرا زہرِ ہلاہل اس میں گھولے گا

مقیّد ہے وہ گو قصرِ اَنا میں ، چھوڑ کر مجھ کو
ہوا یادوں کی آئے گی دریچے جب بھی کھولے گا

کسے معلوم تھا اک آفریں نادان دیوانہ
زمانے بھر کا سب دکھ درد سینے میں سمولے گا

Related posts

Leave a Comment