طالب انصاری ۔۔۔ جو کچھ بھی اُٹھانا ہے قرینے سے اُٹھائیں

جو کچھ بھی اُٹھانا ہے قرینے سے اُٹھائیں بس حسبِ ضرورت ہی خزینے سے اٹھائیں کھل جائے گا رستا بھی گلابوں بھری چھت کا پہلے خس و خاشاک تو زینے سے اُٹھائیں پھولوں کو جو خواہش ہو مہکنے کی زیادہ خوش بو کی لپٹ تیرے پسینے سے اُٹھائیں ہاتھ آئے گی یوں کیسے زر و سیم کی زنبیل پھنکارتا افعی تو دفینے سے اٹھائیں یارانِ وفادار بہتّر ہیں بہت ہیں بہتر ہے نہ کچھ اور مدینے سے اٹھائیں میں پار اُترنے کی ضمانت انھیں دوں گا امیّدِ شکستہ تو سفینے…

Read More

طالب انصاری ۔۔۔ آخری گزارش

آخری گزارش ۔۔۔۔۔۔۔۔ مری گفتگو بھیگے پتّوں پہ لکھی وہ تحریر ہے جو کسی کی سمجھ میں ہی آتی نہیں ہے مرے خواب زرتاب کرنوں سے گوندھے ہوئے خواب تاریکیوں سے بھری کوٹھڑی کی ٹپکتی ہوئی چھت کے نیچے پڑے ہیں کہ یہ سکّۂ رائج الوقت ہرگز نہیں ہیں مری سوچیں مسجد کی الماری میں رکھّی پُرنور رحلیں جو بے کار چیزوں کی صورت ٹرنکوں کے اندر چھپا دی گئی ہیں انھیں جھاڑنے ، پونچھنے کی کسی کو بھی فرصت نہیں ہے مری خواہشیں گوردوارے کے اونچے کلس جیسی تھیں…

Read More

طالب انصاری ۔۔۔ آخری گزارش

آخری گزارش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مری گفتگو بھیگے پتّوں پہ لکھی وہ تحریر ہے جو کسی کی سمجھ میں ہی آتی نہیں ہے مرے خواب زرتاب کرنوں سے گوندھے ہوئے خواب تاریکیوں سے بھری کوٹھڑی کی ٹپکتی ہوئی چھت کے نیچے پڑے ہیں کہ یہ سکّۂ رائج الوقت ہرگز نہیں ہیں مری سوچیں مسجد کی الماری میں رکھّی پُرنور رحلیں جو بے کار چیزوں کی صورت ٹرنکوں کے اندر چھپا دی گئی ہیں انھیں جھاڑنے ، پونچھنے کی کسی کو بھی فرصت نہیں ہے مری خواہشیں گوردوارے کے اونچے کلس جیسی تھیں…

Read More

طالب انصاری ۔۔۔ کہاں جاؤں

کہاں جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے لیے اک گھر بنانا ہے کہ اب سرکار کی جو نوکری ہے چُھٹنے والی ہے پرانی گلیوں میں واپس چلا جاؤں یہ جی تو کرتا ہے لیکن وہاں سے تو جڑیں ہی ایسی اکھڑی ہیں وہ مٹّی اجنبی نظروں سے مجھ کو گھورتی ہے اور مری پہچان سے انکار کرتی ہے مرے بیٹے نے جو نقشہ بنایا ہے تو اس میں کوئی ڈیوڑھی ہی نہیں ہے (اب کہیں تعمیر کی ہر ممکنہ صورت میں ڈیوڑھی کا تصوّر ہی نہیں ملتا) نہ لوہے کی سلاخوں والی…

Read More

طالب انصاری ۔۔۔ مشغلہ شعر گوئی ہے صاحب

مشغلہ شعر گوئی ہے صاحب ہم سا پاگل بھی کوئی ہے صاحب فصل غم کی میں آپ کاٹوں گا اپنے ہاتھوں سے بوئی ہے صاحب رات کا شکریہ ادا کر دوں میرے ہم راہ روئی ہے صاحب آرزو کو جگانے مت آنا شور کر کر کے سوئی ہے صاحب میری باتیں جسے سمجھ آئیں شہر میں کوئی کوئی ہے صاحب سرد راتوں میں کام آتی ہے یاد بھی گرم لوئی ہے صاحب ناؤکا پوچھتے ہو کیا مجھ سے ناخدا نے ڈبوئی ہے صاحب میں اکیلا بجھا بجھا تو نہیں شام…

Read More