طالب انصاری ۔۔۔ کہاں جاؤں

کہاں جاؤں

۔۔۔۔۔۔۔

مجھے اپنے لیے اک گھر بنانا ہے
کہ اب سرکار کی جو نوکری ہے چُھٹنے والی ہے
پرانی گلیوں میں واپس چلا جاؤں
یہ جی تو کرتا ہے لیکن
وہاں سے تو جڑیں ہی ایسی اکھڑی ہیں
وہ مٹّی اجنبی نظروں سے مجھ کو گھورتی ہے
اور مری پہچان سے انکار کرتی ہے
مرے بیٹے نے جو نقشہ بنایا ہے
تو اس میں کوئی ڈیوڑھی ہی نہیں ہے
(اب کہیں تعمیر کی ہر ممکنہ صورت میں ڈیوڑھی کا تصوّر ہی نہیں ملتا)
نہ لوہے کی سلاخوں والی کھڑکی ہے
(کہ اب المونیم کا دور دورہ ہے)
نہ کوئی طاق ہے اس میں ، نہ پڑچھتّی دکھائی ہے
رسوئی ہے!
(کچن کہتے ہیں اب جس کو)
مگر اس میں برادے والی انگیٹھی کہاں رکھّیں
بھلا مر مر کے شیلفوں پر
گئے وقتوں کی فرسودہ سی چیزیں کون رکھتا ہے
نہ کوئی کوٹھڑی ہے
فالتو اشیا کو جس میں ٹھونس کر رکھتے ہیں
موٹا سا کوئی تالا پڑا ہوتا ہے
ٹیڑھے ، چرچراتے نم زدہ در پر
کوئی خاموشیوں میں اونگھتا دالان بھی اس
میں نہیں شامل
جو آتی جاتی آہٹ سے اچانک چونک جاتا ہو
وہاں میں اجنبی ٹھہرا
یہاں بیتا ہوا منظر نہیں ملتا
کہاں جاؤں!

Related posts

Leave a Comment