نسیمِ سحر ۔۔۔ کہا تھا کس نے کہ یوں آسماں اُٹھائے پھرو

کہا تھا کس نے کہ یوں آسماں اُٹھائے پھرو
سو اب یہ بارِ گراں میری جاں اُٹھائے پھرو

لگی ہے آگ جو دل میں اُسے بھڑکنے دو
نفس نفس میں تم اُس کا دھؤاں اُٹھائے پھرو

زمین پاؤں تلے سے سرکتی جاتی ہے
جدھر بھی جاؤ تُم اپنا مکاں اُٹھائے پھرو

تمہاری بات سُنے ، کس کو اِتنی فرصت ہے
لبوں پہ یوں نہ وہی داستاں اُٹھائے پھرو

رفاقتوں کا نتیجہ یہی نکلنا تھا
اب اپنی ذات کی تنہائیاں اٹھائے پھرو

ہوئے ہو تم جو شکستہ شکستِ خواب کے ساتھ
اب اپنی ٹوٹی ہوئی کرچیاں اٹھائے پھرو

بس آیا چاہتی ہے ساعتِ نشاطِ وصال
کچھ اور دَم یہ غمِ رفتگاں اٹھائے پھرو

کم اعتباریِ دُنیا کا یہ تقاضا ہے
یقین دفن کرو اور گماں اُٹھائے پھرو

تلاشِ موسمِ گُل میں سہولتیں ہوں گی
جو تُم اثاثۂ عہد ِ خزاں اُٹھائے پھرو

جو روشنی نے تمہارے لہُو میں بھر دی ہیں
اب اپنے ساتھ وُہ تاریکیاں اُٹھائے پھرو

سفر کے بعد بھی بھولے نہ داستانِ سفر
سروں پہ گردِ رہِ کارواں اُٹھائے پھرو

عجب سزا یہ ملی ہے کہ موت آنے تک
یہ اپنی زندگیٔ رایگاں اُٹھائے پھرو!

نسیمؔ پہلے اُتارو یہ تِیر سینے میں
پھر اِس کے بعد یہ خالی کماں اٹھائے پھرو !

Related posts

Leave a Comment