طالب انصاری ۔۔۔ آخری گزارش

آخری گزارش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری گفتگو
بھیگے پتّوں پہ لکھی وہ تحریر ہے
جو کسی کی سمجھ میں ہی آتی نہیں ہے
مرے خواب
زرتاب کرنوں سے گوندھے ہوئے خواب
تاریکیوں سے بھری کوٹھڑی کی
ٹپکتی ہوئی چھت کے نیچے پڑے ہیں
کہ یہ سکّۂ رائج الوقت ہرگز نہیں ہیں
مری سوچیں
مسجد کی الماری میں رکھّی پُرنور رحلیں
جو بے کار چیزوں کی صورت ٹرنکوں کے
اندر چھپا دی گئی ہیں
انھیں جھاڑنے ، پونچھنے کی کسی کو بھی فرصت نہیں ہے
مری خواہشیں
گوردوارے کے اونچے کلس جیسی تھیں
دھوپ میں جو زیادہ چمکتا تھا
لیکن وہ سب خواہشیں اب
کسی کونے میں بیٹھی بے وقعتی کی سزا کاٹتی ہیں
وہ سارے ارادے
چٹانیں جنھیں دیکھ کر راستا چھوڑ دیتی تھیں
لکڑی کے خم کھائے دروازے ہی بن گئے ہیں
جو بوسیدہ قبضوں سے لٹکے ہوئے
بے یقینی کی آندھی میں بجتے رہے ہوں
فلک سے بھی اونچی نکلتی امیدیں
ہوا ، دھوپ ، بارش کے رحم و کرم پر
درختوں کی شاخوں میں الجھی پتنگیں ہیں میری امیدیں
رہِ ہستیٔ بے ثمر کے لڑھکتے ہوئے موڑ پر
اب یہ کیسا سمے آگیا ہے
بہاروں سے لب ریز خوش کن زمانے
جنھیں دیکھنے کی تمنّا میں سانسوں کی آری
پہ چلتا رہا ہوں
وہ شاید نہیں آ سکیں گے
سنو ساکنانِ مکانِ حوادث
مری چارپائی کو ڈیوڑھی میں لا کے بچھا دو

Related posts

Leave a Comment