ساجد رضا خان ۔۔۔ سکوں محال ہوا اور قیاس بڑھنے لگے

سکوں محال ہوا اور قیاس بڑھنے لگے
سو میرے چاروں طرف بدحواس بڑھنے لگے

اب اس لیے بھی وفائیں سمجھ سے باہر ہیں
بہت سے لوگ مرے آس پاس بڑھنے لگے

فضا کچھ ایسی بنی رات خواب گہ میں مری
ہوا کے شور سے خوف و ہراس بڑھنے لگے

میں خود پہ روتا ہوں کھل کر نہ کھل کے ہنستا ہوں
مجھے یہ ڈر ہے مرے غم شناس بڑھنے لگے

بہت محال ہے جینا ، کٹھن رویوں میں
خود اپنے آپ پہ دل کی بھڑاس بڑھنے لگے

تمھارے ہاتھ کا پانی بھی شہد جیسا ہے
تمھارا ہاتھ لگے اور مٹھاس بڑھنے لگے

ہمارے جسم امانت ہیں کچی قبروں کے
ہماری یاد میں ساجد اداس بڑھنے لگے

Related posts

Leave a Comment