طالب انصاری ۔۔۔ جو کچھ بھی اُٹھانا ہے قرینے سے اُٹھائیں

جو کچھ بھی اُٹھانا ہے قرینے سے اُٹھائیں
بس حسبِ ضرورت ہی خزینے سے اٹھائیں

کھل جائے گا رستا بھی گلابوں بھری چھت کا
پہلے خس و خاشاک تو زینے سے اُٹھائیں

پھولوں کو جو خواہش ہو مہکنے کی زیادہ
خوش بو کی لپٹ تیرے پسینے سے اُٹھائیں

ہاتھ آئے گی یوں کیسے زر و سیم کی زنبیل
پھنکارتا افعی تو دفینے سے اٹھائیں

یارانِ وفادار بہتّر ہیں بہت ہیں
بہتر ہے نہ کچھ اور مدینے سے اٹھائیں

میں پار اُترنے کی ضمانت انھیں دوں گا
امیّدِ شکستہ تو سفینے سے اٹھائیں

بھائے گی غمِ عشق کی تلخی کسے طالب
ہم ہاتھ جو اس زہر کو پینے سے اٹھائیں

Related posts

Leave a Comment