شہاب صفدر ۔۔۔ برگ و ثمر بحال نہیں کر سکی ہوا

برگ و ثمر بحال نہیں کر سکی ہوا
زخموں کا اندمال نہیں کر سکی ہوا

کرتی رہی جنوب میں نم پاشیاں مگر
ہم قسمتِ شمال نہیں کر سکی ہوا

اونچی حویلیوں کے وہ چشم و چراغ تھے
بھڑکے تو قیل و قال نہیں کر سکی ہوا

جنگل کی آگ بستیوں تک پھیلتی گئی
کم غیظ و اشتعال نہیں کر سکی ہوا

اس بار برف کم تھی سو دریائے ہجر کو
آسودۂ ملال نہیں کر سکی ہوا

تھی زیرِ جبر اس لیے یکساں چہار سو
خوشبو سے مالا مال نہیں کر سکی ہوا

شہپر تھے جن کے ان کی معاون رہی شہاب
بے باز و باکمال نہیں کر سکی ہوا

Related posts

Leave a Comment