اشرف کمال ۔۔۔ دل تری یاد میں ہر غم سے جدا تھا پہلے

دل تری یاد میں ہر غم سے جدا تھا پہلے
ان درختوں کی طرح میں بھی ہرا تھا پہلے

اب وہی نام جو ہونٹوں پہ نہیں لا سکتے
اک وہی نام تو بس حرفِ دعا تھا پہلے

تجھ کو دیکھا تو ملی جلوہ نمائی اس کو
آئنہ ورنہ کہاں عکس نما تھا پہلے

میں جو برباد ہوا خوش ہوئے چہرے کتنے
مجھ سے لگتا ہے کہ ہر شخص خفا تھا پہلے

سامنے آکے بھی فریاد نہیں سنتا تھا
شاید اس شہر میں پتھر کا خدا تھا پہلے

لے گیا مانگ کے خوابوں کی وہ نقدی بھی تمام
حاکمِ شہر بھی لگتا ہے گدا تھا پہلے

تم جو آئے تو چلی بادِ بہاری ہر سو
سانس لینا بھی یہاں ورنہ سزا تھا پہلے

اب جسے سوچ کے زخموں میں جلن ہوتی ہے
سچ تو یہ ہے کہ وہی میری دوا تھا پہلے

Related posts

Leave a Comment