دل و نظر میں شجر ہیں ، گل و ثمر ہیں مرے
چلا ہوں گھر سے تو کچھ خواب ہم سفر ہیں مرے
ہوائے شہر سے مل کر وہ بھول بھال گیا
کہ منتظر کسی گاؤں میں بام و در ہیں مرے
بدن جلاتی چلی جا رہی ہے دھوپ مرا
اور اُس پہ ظلم کہ بادل بھی بے خبر ہیں مرے
ہوا چلی تو یہ اُڑتے پھریں گے شہر بہ شہر
چمن میں بکھرے ہوئے جو شکستہ پر ہیں مرے
زمیں کا بوجھ سمجھ کر گرا نہیں دینا
کہ چھاؤں بانٹنے والے بھی کچھ شجر ہیں مرے
ہوئے ہیں کون سے تعبیر اور کون سے نیٔں
درونِ باغ تو سب خواب اِدھر اُدھر ہیں مرے
پھر ایک شہرِ شفق کا سفر ہوا درپیش
اور اُس میں چاند ستارے بھی ہم سفر ہیں مرے