تاثیر جعفری ۔۔۔ کون سمجھے گا زمانے میں یہ تاثیر کا دکھ

کون سمجھے گا زمانے میں یہ تاثیر کا دکھ
کھا گیا دل کو مرے خواب کی تعبیر کا دکھ

روز تنہائی میں دُکھڑے یہ سناتی ہے مجھے
میں نے سینے سے لگا رکھا ہے تصویر کا دکھ

دل ترے ہجر کے زندان سے نکلا بھی نہیں
جسم کو کھائے چلا جاتا ہے زنجیر کا دکھ

یہ لکیریں سی جو بکھری ہیں مرے ماتھے پر
اپنی پیشانی یہ لکھ رکھا ہے تقدیر کا دکھ

کس طرح اس کو سمیٹوں میں شکستہ دل میں
ٹوٹتے بنتے ہوئے غم تری تفسیر کا دکھ

روح کو چھلنی سا کرتے ہیں رویے صاحب
اور دکھ سب سے بڑا ہوتا ہے تحقیر کا دکھ

مر گئی شہر میں رانجھے کو صدائیں دیتی
شہر میں کوئی سمجھ پایا نہیں ہیر کا دکھ

Related posts

Leave a Comment