عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ سبھی پہاڑوں پہ برف پڑنے کے منتظر تھے

سبھی پہاڑوں پہ برف پڑنے کے منتظر تھے
اور ایک ہم تھے کہ دل پگھلنے کے منتظر تھے

خُنَک ہوا پھر لہو کی گردش بڑھا رہی تھی
چراغ پَوروں میں پھر سے جلنے کے منتظر تھے

وہ گرم ہاتھوں سے برف  پُتلے بنا رہی تھی
جو بن چکے تھے وہ پھر بکھرنے کے منتظر تھے

بُریدہ شاخوں پہ سرد ہوتے ہوئے وہ لمحے
کسی کے لہجے سے پھول جھڑنے کے منتظر تھے

وہ بون فائر کے پاس بیٹھی تھی اور شعلے
نمیدہ آنکھوں سے بات کرنے کے منتظر تھے

کسی کی چاہت کشید کرکے سفید گالے
کسی کے مفلر پہ آن گرنے کے منتظر تھے

Related posts

Leave a Comment