محمد افتخار شفیع…مرجھاگیابہارمیں کیوں گلشن خیال (فرتاش سید:چند بے ترتیب باتیں)

مرجھاگیابہارمیں کیوں گلشن خیال
(فرتاش سید:چند بے ترتیب باتیں)

حمایت علی شاعر مرحوم کے صاحب زادے اوج کمال کراچی میں ”دنیائے ادب“کاعالمی مشاعرہ کرواتے تھے۔سال ۲۰۰۲ء میں مجھے اس مشاعرے میں شرکت کادعوت نامہ ملا،میرے ساتھ ملتان سے برادرم ڈاکٹرشفیق آصف،برادرم رضی الدین رضی اور ڈاکٹرغزالہ خاکوانی کوبھی مدعو کیاگیا تھا،غزالہ توشاید جہازسے گئی تھیں،ہم دوستوں نے ٹرین سے جانے کافیصلہ کیا،راستے میں گفتگوکے دوران میں شفیق آصف نے بتایاکہ مشاعرے میں قطرسے فرتاش سیدبھی آرہاہے،اس کا آبائی تعلق وہاڑی سے ہے،اور اس لحاظ سے وہ ہمارا ”گرائیں“ہے۔کراچی کایہ مشاعرہ بڑایادگار تھا،یہاں پہلی دفعہ ہماری ملاقات جمیل الدین عالی،جون ایلیا،حمایت علی شاعر،سحرانصاری،سلیم کوثراورپیرزادہ قاسم جیسے مشاہیرسے ہوئی،مشاعرہ کراچی آرٹس کونسل کے اوپن ائیر تھیٹرمیں ہوا،شعراحضرات کو جاویدمنظر صاحب کی نگرانی میں کراچی سٹیل مل کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایاگیا تھا،یہاں میری فرتاش سیدسے پہلی ملاقات ہوئی،دوتین روزہ قیام کے دوران میں فرتاش سیدسے ہماری بے تکلفی یوں رنگ لائی کہ اس کا ٹکسالی اردوکالب ولہجہ بہت جلد ہماری مادری زبان (جسے رچناوی کہہ لیں)میں بدل گیا،مشاعرہ گاہ جانے سے پہلے فرتاش میرے کمرے میں آیا،اس کے ہاتھ میں پرفیوم (بروٹ)کی شیشی تھی، کہنے لگا،افتخار! مشاعرے کے آداب میں پرفیوم لگانابھی شامل ہے،میں نے سوچاتمہیں اور شفیق آصف کو شایدضرورت ہو،فرتاش کی دی ہوئی خوشبوکاتحفہ ایساتھاکہ میں آج بھی اس سے معطرہوں۔مشاعرہ ختم ہوا۔۔۔وہ قطراورہم واپس۔۔۔
دوتین سال بعد۔۔میں پنجاب کالج ملتان میں اردو کی تدریس سے وابستہ تھا کہ مجھے وائس پرنسپل نصیب الدین صاحب نے کہاکہ کسی فضل حسین نامی صاحب کا سی وی آیاہے،معروف شاعرہیں۔۔۔کیا آپ انھیں جانتے ہیں۔میں نے لاعلمی کااظہارکیا۔درخواست دیکھ کر میں چونک گیا،درخواست گزار کا نام فضل حسین فرتاش درج تھا،مجھے معلوم نہ تھا کہ فرتاش کا اصل نام فضل حسین ہے۔فون پررابطہ کیاتومعلوم ہواکہ فر تاش قطروالی ملازمت (سکول میں درس وتدریس) چھوڑکرواپس آگیاہے اوربے روزگارہے۔پنجاب کالج ملتان (چوک رشیدآباد) کے پرنسپل امجدنیاز چودھری ایک باکمال انسان اور نہایت عمدہ منتظم تھے۔میں نے فرتاش سیدکوانٹرویو کے بارے میں بنیادی معلومات دیں۔وہ اچھا مقرر تھا،کلاس روم میں ڈیمانسٹریشن بھی خوب رہی،یوں فرتاش سید ہمارا رفیق کاربن گیا،ان دنوں اس سے ایسا دوستانہ ہوا کہ بس۔فرتاش کو موٹرسائیکل چلانی نہیں آتی تھی اور میں نے بلاچون وچراں اس کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ساراسارا دن ہم ملتان کی سڑکوں اور بازاروں میں گھومتے،احباب سے ملاقاتیں کرتے،فرتاش بہت محنتی انسان تھا،اس نے مجھے بتایاکہ میں نے الیکشن کے دنوں میں وال چاکنگ کرکے بھی روزی کمائی ہے،میں نے اس کے منہ سے ہمیشہ ملک مصیب الرحمن صاحب اور ڈاکٹرانواراحمدصاحب کی تعریف سنی،وہ دونوں شخصیات سے بہت عقیدت رکھتا تھا۔
میں نے محسوس کیاکہ اس کے مزاج میں ایک عجیب طرح کی عجلت ہے،وہ کسی ایک ملازمت پرقانع نہیں،۔ایک سال کی رفاقت یوں ختم ہوئی کہ اس نے کالج کی ملازمت ترک کرکے سیال کوٹ کی ایک این۔جی۔او میں ملازمت کرلی،چندماہ بعدمیں بھی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے لیکچرر منتخب ہوکرفورٹ عباس (بہاول نگر) چلاگیا۔جہاں میں ایک سال متعین رہا اوربالآخرتبدیل ہوکرگورنمنٹ کالج ساہیوال آ گیا۔
ساہیوال میں ایک دن مجھے فرتاش کافون آیاکہ میں ٹی۔بی کے خاتمے کے لیے بنائی گئی این جی او کے ایک پراجیکٹ کے لیے ساہیوال آگیاہوں اور مجھ سے ملازمت کے لیے جن تین چارشہروں کی آپشن پوچھی گئی تھی،میں نے ساہیوال کوچن لیا کیوں کہ یہاں میرادوست افتخارشفیع رہتاہے اس کے علاوہ یونیورسٹی کے زمانے کی گم شدہ محبت ،فرتاش سید نے پاک ایونیوہاؤسنگ سکیم میں ایک گھر لیا،یہ اس کادفتربھی تھااور سکونت بھی،اکثر ملاقاتیں ہونے لگیں،صبح وشام کی رفاقت ، میری سفارش پر اس نے حسرت بلال اورسمیع اللہ چودھری کواین۔جی۔او میں اپنے ساتھ منسلک کرلیا،کبھی کبھاراس کی فیملی بھی آجاتی،اس کی اہلیہ اور بچے میرے گھربھی تشریف لاتے۔ہم نے باہمی کوششوں سے بہت سی تقریبات بھی کروائیں۔فرتاش ایک بہت مخلص اورمحبت کرنے والا سادہ انسان تھا۔ ایک دن میں ساہیوال میں اس کے گھرگیا،اس کی نظرمیری پتلون پرپڑی جو پائنچے کے قریب سے خستگی کے باعث تھوڑی سی پھٹ چکی تھی،اگلی ملاقات میں اس نے لامحسوس طریقے سے مجھے اپنے کپڑوں کی الماری میں سے دو سیکنڈہینڈ پتلونیں نکال کردیں،کہنے لگا،افتخار۔۔۔یہ لاہور کے لنڈا بازار سے لی ہیں،۔مجھے پوری نہیں آئیں،پہن کردیکھو شایدتمہیں پوری آجائیں،وہ دراصل مجھے ناراض نہیں کرناچاہتاتھا۔
فرتاش مجھ سے گھنٹوں فون پرباتیں کرتے رہتے تھے۔اچانک میرے شہر پہنچ کرفون کرتے ۔لینے آجاؤ,تمہارے شہر آیاہوں ,میں سڑک پرتلاش کررہاہوتا ۔تم دور سے کندھے سے بیگ لٹکائے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلاتے دکھائی دیتے۔کبھی ڈاکٹرریاض ہمدانی کی دعوت پر ساہیوال آرٹس کونسل کے مشاعروں میں پہنچتے۔  فرتاش سیدکی کون کون سی باتیں یادکروں،وہ ایک ہمہ دم چہکتاہوا نایاب پرندہ تھا، ایک خوب صورت شاعر،غزل کے محاسن ومعایب کوسمجھنے والا نقاد، ایک وفاداردوست جس پر آنکھیں بندکرکے بھروساکیا جاسکتاتعلق نبھانے والا وضع دار شخص جسے ہر لمحہ دوستوں کی پسندناپسندکا خیال رہتا،فرتاش سیدمجھے یقین ہے تم ضرور جنت میں اعلیٰ مقام پاؤگے کیوں کہ تم نے تاعمر کسی کودکھ نہیں دیا۔سچے اور اصلی دوست تھے۔تمہارے منہ سے کسی کی غیبت نہیں سنی۔تمہیں دوستی نباہنے کا طریقہ آتاتھا۔مرتے ہوئے بھی تم نے اسی عجلت کامظاہرہ کیاجوتمہاری شخصیت کاحصہ تھی۔مجھے دکھ ہے کہ اب تم جیسایار کیسے بناپاؤں گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment